خیبرپختونخوا گھنے جنگلات اور نایاب جنگلی حیات کے اعتبار سے ملک بھر میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان جنگلی حیات میں سب سے منفرد اور دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان رکھنے والا قومی جانور مارخور ہے۔ مارخور کی سب سے زیادہ آبادی خیبرپختونخوا خصوصاً چترال اور کوہستان میں پائی جاتی ہے۔جہاں دنیا بھر میں نایاب جانور اور پرندے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں، وہیں محکمہ جنگلی حیات خیبرپختونخوا کے بروقت اور عملی اقدامات کی بدولت صوبے میں مارخور کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 1998-99 میں چترال میں مارخور کی تعداد 618 اور کوہستان میں 343 ریکارڈ کی گئی تھی۔ تاہم غیر قانونی شکار کے باعث مارخور کی آبادی میں کمی کے پیشِ نظر محکمہ نے مقامی کمیونٹیز کی شمولیت کے ساتھ 1998-99 ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کا آغاز کیا۔
یہ پروگرام پہلے چترال میں شروع ہوا اور بعد ازاں 2003-4 میں کوہستان تک توسیع دی گئی۔اس پروگرام کے تحت ہر سال ایکسپورٹیبل مارخور کے شکار کے لیے پرمٹس جاری کیے جاتے ہیں، جنہیں وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد بین الاقوامی کنونشن (CITES) کے تحت غیر ملکی شکاریوں کو کھلی بولی کے ذریعے الاٹ کیا جاتا ہے۔ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ رجسٹرڈ آؤٹ فٹرز ان بولیوں میں حصہ لیتے ہیں جو امریکی ڈالر میں طلب کی جاتی ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں جنگلی حیات اور نایاب پودوں کی حفاظت کے لیے “وائلڈ لائف ٹریڈ کنٹرول ایکٹ 2012” نافذ ہے۔ یہ قانون ایک بین الاقوامی معاہدے (CITES) کو پورا کرنے کے لیے بنایا گیا، جس کا مقصد دنیا بھر میں نایاب جانوروں اور پودوں کی غیر قانونی خرید و فروخت روکنا ہے۔اس قانون کے مطابق، اگر کوئی جانور یا پودا(CITES)کی فہرست میں شامل ہے تو اس کی برآمد یا درآمد صرف اجازت نامے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اسی قانون کے تحت پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ پروگرام بھی چلایا جاتا ہے۔ یہ پروگرام ایک سائنسی اور منظم نظام پر مبنی ہے، جس میں شکار کا ایک محدود کوٹہ مقرر کیا جاتا ہے تاکہ جانوروں کی نایاب نسلیں ختم نہ ہوں۔ٹرافی ہنٹنگ پروگرام سے مارخور کی آبادی میں زبردست اضافہ ہوا۔ سال 2024 کی رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں مارخور کی تعداد تقریباً 6222تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں چترال میں 2669، کوہستان میں 796، چترال گول نیشنل پارک میں 2585 اور سوات میں تقریبا 172مارخور شامل ہیں۔ٹرافی ہنٹنگ پروگرام سے حاصل آمدن کا 80 فیصد مقامی کمیونٹیز کو دیا جاتا ہے جبکہ 20 فیصد صوبائی خزانے میں جمع ہوتا ہے۔ یہ رقوم ویلج کنزرویشن کمیٹیوں کے اکاؤنٹس میں منتقل کی جاتی ہیں، جو اپنی ضرورت کے مطابق ان فنڈز کو مقامی لوگوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرتی ہیں۔ اس عمل کی نگرانی کے لیے ایک مؤثر سرکاری نظام بھی موجود ہے،محکمہ جنگلی حیات صرف بوڑھے اور نر مارخور کے شکار کے لیے پرمٹس جاری کرتے ہیں۔ حال ہی میں محکمہ نے 2025-26 سیزن کے لیے مارخور، آئی بیکس اور گرے گورل کے پرمٹس کی نیلامی مکمل کی، جس میں صوبائی حکومت نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ اس سیزن میں 39 پرمٹس ریکارڈ19,13,842امریکی ڈالر (542.7 ملین روپے) میں نیلام ہوئے جن میں ایکسپورٹ ایبل مارخور کے 4 پرمٹس946,000 امریکی ڈالر،نان ایکسپورٹ ایبل مارخور کے 9 پرمٹس 553,300 امریکی ڈالر،نان ایکسپورٹ ایبل آئی بیکس کے 20 پرمٹس16,042 امریکی ڈالر اور نان ایکسپورٹ ایبل گرے گورل کے 6 پرمٹس 398,500 امریکی ڈالر میں نیلام ہوئے، اس سال پہلی بار نان ایکسپورٹ ایبل گرے گورل کا پرمٹ متعارف کرایا گیا، جس سے آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا۔ایکسپورٹ ایبل مارخور کے چار پرمٹس میں توشی ون 246,000 ڈالر، توشی ٹو 243,000 ڈالر، مولین گول 241,000 ڈالر اور کیغ ویلی کوہستان 216,000 ڈالر میں نیلام ہوئے۔ اسی طرح آئی بیکس کے 22 اور گرے گورل کے 6 پرمٹس (ایبٹ آباد، ہری پور، الائی بٹگرام اور مارتونگ سوات سمیت) فروخت کیے گئے،ٹرافی ہنٹنگ پروگرام نہ صرف صوبائی حکومت کے جنگلی حیات کے تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کے عزم کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مقامی کمیونٹی کی معاشی ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ محکمہ جنگلی حیات وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اور معاون خصوصی برائے جنگلی حیات پیر مصور خان کی خصوصی نگرانی میں جنگلی حیات کے تحفظ، تحقیق اور بحالی کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔صوبے میں ری وائلڈنگ پروگرام کا آغاز کیا جا چکا ہے جبکہ جلد ہی تحقیقی مقاصد کے لیے گرین ہنٹ پروگرام بھی شروع کیا جائے گا۔ صوبائی حکومت مارخور سمیت دیگر جنگلی حیات کے تحفظ، فروغ اور غیر قانونی شکار کے
تدارک کے لئے پُرعزم ہے۔
تحریر، محمد طیب
افسرتعلقات عامہ برائے معاون خصوصی جنگلات و جنگلی حیات
افسرتعلقات عامہ برائے معاون خصوصی جنگلات و جنگلی حیات