وزیر قانون خیبر پختونخوا آفتاب عالم ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ صوبے میں سول ڈیفنس کی ری آرگنائزیشن اور ری سٹرکچرنگ سے ادارے کی استعدادِ کار میں اضافہ ہوگا

وزیر قانون خیبر پختونخوا آفتاب عالم ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ صوبے میں سول ڈیفنس کی ری آرگنائزیشن اور ری سٹرکچرنگ سے ادارے کی استعدادِ کار میں اضافہ ہوگا اور عوام کو درپیش قدرتی و انسانی آفات میں بروقت اور مؤثر ردعمل یقینی بنایا جا سکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جدید تقاضوں کے مطابق سول ڈیفنس کا ڈھانچہ مضبوط بنانے سے نہ صرف بین الصوبائی و قومی سطح پر ہم آہنگی بڑھے گی بلکہ رضاکاروں کی صلاحیتوں کو بھی زیادہ منظم اور مؤثر انداز میں استعمال کیا جا سکے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور میں کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں صوبائی وزیر زراعت میجر (ر) سجاد بارکوال، وزیر ریلیف، بحالی و آباد کاری نیک محمد داوڑ، وزیر سماجی بہبود، وومن ایمپاورمنٹ و سپیشل ایجوکیشن سید قاسم علی شاہ، وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے تعمیرات و مواصلات محمد سہیل آفریدی، سپیشل سیکرٹری محکمہ داخلہ زبیر احمد، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ (سیکیورٹی) محمد قیصر، ڈپٹی سیکرٹری محکمہ داخلہ (ڈیفنس پلاننگ سیل) قلات خان سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے حکام نے شرکت کی۔ کابینہ کمیٹی کے قیام کا مقصد سول ڈیفنس کو محکمہ داخلہ کے زیر انتظام لانے کے مجوزہ منصوبے کا جائزہ لینا تھا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ سول ڈیفنس تنظیم 1952ء میں قائم ہوئی جبکہ 1971ء میں صوبائی ڈائریکٹوریٹ کے طور پر ہوم ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام شروع کیا۔ 2013ء میں اسے محکمہ ریلیف کے تحت منتقل کیا گیا تاکہ قدرتی آفات اور دیگر ہنگامی حالات میں فوری ردعمل کے لیے ریلیف ڈپارٹمنٹ اور سول ڈیفنس مل کر کام کر سکیں۔ سول ڈیفنس کے رضاکار مختلف مواقع پر جنگلاتی آگ بجھانے، پانی میں ریسکیو، کورونا پابندیوں کے نفاذ اور عوامی آگاہی جیسے اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔محکمہ ریلیف نے اجلاس میں مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ اس محکمے کا بنیادی فریم ورک ہی قدرتی و انسانی آفات سے نمٹنا ہے، اس لیے سول ڈیفنس کا محکمہ ریلیف کے تحت رہنا زیادہ موزوں ہے تاکہ تربیت یافتہ رضاکاروں کی خدمات کو براہِ راست استعمال کیا جا سکے۔ محکمہ ہوم نے اپنی تجاویز میں کہا کہ دیگر صوبوں میں سول ڈیفنس ہوم ڈیپارٹمنٹس کے ماتحت کام کرتا ہے اور وفاقی سطح پر بھی سول ڈیفنس کو ہوم ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ منسلک کرنے کی بارہا سفارش کی گئی ہے۔ محکمہ قانون نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ صوبائی حکومت کو قواعدِ کاروبار میں ترمیم کے ذریعے کسی محکمے کا دائرہ اختیار تبدیل کرنے کا اختیار حاصل ہے، جو وزیر اعلیٰ اور گورنر کی مشاورت سے ممکن ہو سکتا ہے۔ محکمہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ معاملے کو صوبائی کابینہ کے سامنے رکھنے کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔اجلاس میں طے پایا کہ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی تمام محکموں کی آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سفارشات صوبائی کابینہ کو پیش کرے گی تاکہ آئندہ کے لیے حتمی فیصلہ کیا جا سکے۔ اس موقع پر وزیر قانون نے کہا کہ سال 2013 میں سول ڈیفنس کو محکمہ داخلہ سے الگ کرکے محکمہ ریلیف کے زیر انتظام کام کرنے کے فیصلے کی وجوہات کو آئندہ کے اجلاس میں پیش کیا جائے۔ میجر (ر) سجاد بارکوال نے کہا کہ سول ڈیفنس کو کسی بھی محکمہ کے تحت کام کرنے کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تفصیلی تقابلی جائزہ تیار کرکے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے۔ وزیر سماجی بہبود وومن ایمپاورمنٹ و سپیشل ایجوکیشن نے کہا کہ سول ڈیفنس کے 30 ہزار رضاکاروں کی نمائندگی کو مجوزہ فیصلے کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے اور آئندہ اجلاس میں ان کی نمائندگی کو بھی شامل کرنے کی تجویز پیش کی۔ سہیل آفریدی نے کہا کہ محکمہ داخلہ کے زیر انتظام اس وقت کئی محکمے زیر اثر ہیں تاہم سول ڈیفنس اور اس سے جڑے 30 ہزار رضاکاروں کی خدمات کو کسی بھی محکمہ کے زیر اثر لانے سے اس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے اور کمیٹی کو اس امر کو مرکزی نکتہ قرار دینا چاہیے۔ وزیر قانون آفتاب عالم ایڈووکیٹ نے سول ڈیفنس ایسوسی ایشن یا ضلعی سطح پر مجوزہ فیصلے کے بارے میں سینئر نمائندوں کی شمولیت کو ناگزیر قرار دیا۔

مزید پڑھیں