وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے صنعت، عبدالکریم تورڈھیر نے کہا ہے کہ دنیا ماحول دوست ٹرانسپورٹ کی جانب بڑھ رہی ہے، اور الیکٹرک گاڑیوں (ای ویز) کا فروغ اس سلسلے میں اہم قدم ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے نیک نیتی سے پالیسی سازی خوش آئند ہے، تاہم اس کے مؤثر نفاذ کے لیے ایک واضح اور جامع ریگولیٹری نظام اپنانا ناگزیر ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور میں الیکٹرک گاڑیوں اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے فروغ کے لیے متعارف کی جانے والی پانچ سالہ نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی (2025-30) کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ورکشاپ کا مقصد نئی قومی پالیسی سے متعلق آگاہی پیدا کرنا اور قومی و صوبائی حکومتوں کے مابین تعاون کو فروغ دینا تھا۔ورکشاپ کی صدارت وزیراعلیٰ کے معاونینِ خصوصی برائے صنعت عبدالکریم تورڈھیر اور برائے ٹرانسپورٹ رنگیز خان کے علاوہ وفاقی سیکریٹری صنعت و پیداوار سیف انجم نے کی۔ اس موقع پر سیف انجم نے نئی پالیسی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے اس کے فریم ورک، تزویراتی مقاصد، فوائد، ادارہ جاتی طریقہ کار اور نفاذ کے لیے مرتب کردہ روڈمیپ پر تفصیلی بریفنگ دی۔ ورکشاپ کے دوران شرکاء نے پالیسی میں مزید بہتری کے لیے مختلف آراء بھی پیش کیں۔ورکشاپ میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری منصوبہ بندی و ترقیات اکرام اللہ، سیکرٹری منصوبہ بندی عدیل شاہ، سیکرٹری ٹرانسپورٹ مسعود یونس، دیگر اعلیٰ حکام، وفاقی و صوبائی محکموں کے نمائندگان، صنعتکار، کاروباری شخصیات، سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر فضل مقیم، انجمن تاجران کے نمائندگان اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔پانچ سالہ نئی پالیسی کے تحت 2025 سے 2030 تک ملک میں 30 فیصد گاڑیوں کو الیکٹرک وہیکل پر منتقل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جس کے لیے ملک بھر میں 3000 چارجنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے۔معاون خصوصی عبدالکریم تورڈھیر نے کہا کہ اگرچہ نئی پالیسی کے حوالے سے مشاورت کا عمل جلد بازی میں مکمل کیا گیا، تاہم ماحول کے تحفظ کے لیے یہ ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے خاص طور پر لیتھیئم بیٹریز کی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے سرمایہ کاری کے آسان ماڈلز اور لیزنگ کے شفاف طریقہ کار وضع کیے جانے چاہئیں تاکہ مقامی صنعت کو فروغ ملے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان بیٹریز کی عمر، استعمال کے بعد ان کا محفوظ طریقے سے تلف ہونا، اور ماحول پر ممکنہ اثرات جیسے امور کے لیے بھی ایک جامع ریگولیٹری نظام قائم کیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے چارجنگ اسٹیشنز کے مقام، رسائی اور چارجنگ طریقہ کار کے بارے میں بھی شفاف پالیسی کی ضرورت پر زور دیا۔ معاون خصوصی نے کہا کہ محکمہ صنعت صوبائی سطح پر خیبرپختونخوا بورڈ آف انوسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے ذریعے وفاقی اداروں سے قریبی روابط رکھے گا تاکہ پالیسی کے نفاذ میں ہر ممکن تعاون فراہم کیا جا سکے۔اس موقع پر معاون خصوصی برائے ٹرانسپورٹ، رنگیز خان نے کہا کہ پالیسی میں دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے لیے دی جانے والی سبسڈی سے کم آمدنی والے افراد مستفید ہوں گے، بشرطیکہ چارجنگ اسٹیشنز دیہی علاقوں میں بھی دستیاب ہوں۔ انہوں نے تجویز دی کہ چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کے تمام مراحل ون ونڈو آپریشن کے تحت مکمل کیے جائیں تاکہ سرمایہ کاروں اور صارفین دونوں کو سہولت ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔