صوبائی وزیر ایکسائز خلیق الرحمان کی سربراہی میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی ہدایت پر پشاور شہر میں ٹریفک کے مسائل کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کا ایک انتہائی اہم اور طویل اجلاس کمشنر پشاور کے آفس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمشنر پشاور ریاض محسود ایم پی اے فضل الٰہی ایم این اے شاندانہ گلزار ایم پی اے ارباب عمر ایوب ایم این اے ارباب شیر علی ایم پی اے سمیع اللہ خان اور تمام متعلقہ ڈیپارٹمنٹس ٹرانسپورٹ، ایکسائز، پی ڈی اے، سی ٹی او آر ٹی اے ٹرانس پشاور اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے افسران بھی شریک تھے۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر پشاور نے پشاور کے ٹریفک کے حوالے سے شارٹ ٹرم ٹریف پلان میڈیم ٹڑم ٹریفک پلان اور لانگ ٹرم ٹریفک پلان پر مشتمل پریزنٹیشن پیش کی، شارٹ ٹرم ٹریفک ٹریفک پلان تین مہینوں پر مشتمل ہوگا۔ اس پلان کے مطابق ضبط شدہ گاڑیوں کے لیے جگہ فراہم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بی آر ٹی روٹس پر ویگنوں اور بسوں پر پابندی لگانا بھی شامل ہے۔ پشاور کے مختلف روٹس پر جن تجاوزات کی وجہ سے ٹریفک میں خلل اور رکاوٹ ہے ان تجاوزات کے حوالے سے ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لانا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی پشاور شہر میں نئے پلازے بن رہے ہیں کمرشل بنیادوں پر ان پلازوں میں پارکنگ کا انتظام کرنے کے لئے ان کے مالکان کو اگاہی نوٹس بھجوانا ہے۔ پشاور شہر میں جہاں جہاں بھی غیر قانونی پارکنگز ہیں ان پر زیادہ سے زیادہ جرمانہ لگایا جائے گا تاکہ اس سے غیر قانونی پارکنگ کی روک تھام ممکن ہو سکے اس کے علاوہ بی آر ٹی کوریڈور پر جہاں جہاں چوک پوائنٹس ہیں ان کا ہٹانا لازمی ہے تاکہ ٹریفک کی روانی کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر جہاں جہاں کنسٹرکشن مٹیریل پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں خلل ہوتا ہے اس مٹیریل کو ہٹانا ہے تاکہ وہاں پر لوگوں کے ٹریفک کے مسائل کو حل کیا جا سکے اور ٹریفک آسانی سے رواں دواں ہو۔ پشاور شہر میں ٹریفک کی بے ترتیبی اور بد انتظامی کی سب سے بڑی وجہ غیر رجسٹرڈ رکشہ ٹیمپرڈ رکشہ اور آؤٹ پروونس یا آؤٹ ڈسٹرکٹ رکشہ کی موجودگی ہے۔ ان رکشوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے۔ اس حوالے سے ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ اور چیف ٹریفک آفیسر مل کر ان کی روک تھام کیلئے لازمی اقدامات اٹھائیں گے۔ اس کے علاوہ پشاور شہر میں جتنے بھی خراب مین ہولز ہیں ان تمام خراب مین ہولز کی مرمت یا نئے مین ہولز کو فوری طور پر فکس کرنا ہے تاکہ اس سے ٹریفک کی روانی کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٹریفک کے نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے جہاں جہاں سائن بورڈز کی ضرورت ہے جیسے پیٹرول پمپس بس سٹینڈز سی این جی سٹیشنز گورنمنٹ افسز اور سکولز وہاں وہاں پر ان سائن بورڈز کو لگایا جائے گا تاکہ اس سے ٹریفک کی روانی ممکن ہو۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق الیکٹرک بائکس کی رجسٹریشن ضروری ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ الیکٹرک بائکس کو رجسٹر کرائیں اور اور عوام عام موٹرسائیکلوں کی بجائے الیکٹرک بائکس کی طرف آئیں اس سے ماحول کی آلودگی میں کمی آئے گی۔ پشاور شہر میں بسوں اور ویگنوں کے لیے متبادل روٹس کا بندوبست کیا جائے گا تاکہ اس سے نہ صرف ان کا روزگار برقرار رہ سکے بلکہ ٹریفک کی روانی بھی متاثر نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کی فٹنس کے لیے فوری طور پر ایس او پیز یا گائیڈ لائنز بنائے جائیں گے تاکہ ماحول کو آلودہ کرنے والی گاڑیوں کا تدارک کیا جا سکے۔ پشاور میں ٹریفک کے مسائل کو کم کرنے کے لیے رکشوں کے لیے کلرز سکیم متعارف کی جائے گی تاکہ دن کو چلنے والے رکشوں کا رنگ رات کو چلنے والے رکشوں کے رنگ سے مختلف ہو۔ اس کی وجہ سے غیر ضروری رکشوں کی تعداد سڑکوں پر کم ہوگی جس سے ٹریفک کے مسائل کے حل میں بہتری آئے گی۔ اس کے علاوہ پشاور شہر میں جتنے بھی ٹو سٹروکس رکشے ہیں ان تمام رکشوں پر مکمل پابندی ہوگی کیونکہ یہ رکشے پشاور شہر میں آلودگی بڑھانے کے بنیادی عوامل ہیں۔ پرانے ٹریفک پلان کے مطابق ایک سو سے زیادہ مقامات پر یوٹرن ایسے بنائے گئے ہیں جہاں سے بھی ٹریفک کی بے ترتیبی میں اضافہ ہے ان یوٹرنز کو بند کرنا اور اس نئے ٹریفک پلان کے مطابق نئے یوٹرنز بنانا ہے تاکہ اس سے ٹریفک کے مسائل کا تدارک کیا جا سکے۔ پشاور شہر میں ٹریفک کی بے ترتیبی اور بد انتظامی کی بڑی وجہ ہتھ گاڑیوں پر کاروبار ہے ان ہتھ گاڑیوں کے لیے موضوع جگہوں کا بندوبست کرنا لازمی ہے جہاں پر نہ صرف ان کا چھوٹا موٹا کاروبار جاری رہ سکے بلکہ اس سے ٹریفک کی بے ترتیبی اور بد انتظامی کو بھی بچایا جا سکے۔حکومت خیبر پختون خوا پشاور شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ٹریفک کے روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل سے بخوبی آگاہ ہے اگر ٹریفک کی اس بدانتظامی اور بے ترتیبی کے سنگین مسئلے کو بروقت حل نہ کیا گیا تو پشاور شہر میں ٹریفک کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیار کر جائے گا۔ پشاور شہر میں روزانہ لاکھوں گاڑیاں سفر کرتی ہیں جس سے نہ صرف عوام کو ٹریفک کی روانی میں مسائل درپیش ہیں بلکہ اس سے شہر کے ماحول پر بھی انتہائی برا اثر پڑ رہا ہے۔ آئندہ آنے والے چند سالوں میں پشاور شہر کی فضا اتنی آلودہ ہو جائے گی کہ اس میں سانس لینا مشکل ہو جائے گا اور لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے اس لیے صوبائی حکومت اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور اور یہ کمیٹی ایک مربوط اور جامع منصوبہ بندی بنا کر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے سامنے پیش کرے گی جس کے بعد اس کی تکمیل پر بروقت کام شروع کیا جائے گا اور اس ٹریفک کے سنگین مسئلے کے حل کی طرف بڑھنے کی کوشش کی جائے گی۔