زیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے ابتدائی وثانوی تعلیم محمد عاصم خان نے کہا ہے کہ محکمہ تعلیم میں میرٹ و شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ بچوں کی تعلیم اولین ترجیح ہے۔ محکمے میں اصلاحات لا کر بچوں کو مستقبل کی ضروریات کے مطابق تیار کرنا ہے بچوں کو تعلیم کی فراہمی کے ساتھ محکمہ تعلیم میں جدید ٹیکنالوجی اور سکلز متعارف کروائے جائیں گے اور اپنی تعلیمی سٹینڈرڈز کو اس قدر بہتر بنانا ہے کہ نجی سکولوں کے طلبہ و طالبات سرکاری سکولوں میں تعلیم کے لیے آئے۔ تعلیمی سلیبس اور اساتذہ تربیت پروگرامز میں جدید اصلاحات لائے جائیں گے اور تعلیمی بورڈز میں جدید ریفارمز متعارف کروا کر میرٹ بیسڈ کلچر متعارف کروایا جائے گا۔ رٹہ اور نقل کلچر کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگا اور تعلیمی بورڈز میں ڈیجیٹائزیشن کی بدولت طلبہ و طالبات کو آسانی فراہم کی جائے گی۔ میرٹ پر اساتذہ کی بھرتی کر کے اساتذہ کی کمی پوری کی جائے گی اور حکومت کی طرف سے مختص اور ریلیز شدہ بجٹ کو استعمال میں لا کر سابقہ منصوبوں کی تکمیل، نئے منصوبوں کے آغاز اور سکولوں میں ناپید سہولیات کی فراہمی کے لئے بھی عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹی کے کردار کو مزید فعال بنا کر کوالٹی ایجوکیشن کی مانیٹرنگ کے لئے بھی لائحہ عمل تیار کیا جائے گا جبکہ اتھارٹی کے رپورٹس کے مطابق قصوروار اہلکاروں کے خلاف ای این ڈی رولز کے تحت کاروائی بھی عمل میں لائی جائے گی۔ محکمہ تعلیم میں سزا و جزا کا عمل شروع کیا جائے گا اچھی کارکردگی کے حامل اہلکاروں کو جزا اور کم کارکردگی اور قصوروار اہلکاروں کو سزا دی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ تعلیم اورذیلی اداروں کی بریفنگ لیتے وقت کیا۔ اس موقع پر سیکرٹری ایجوکیشن محمد خالد، سپیشل سیکرٹریز عبدالباسط اور مسعود کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل ای ایم اے سہیل خان مینجنگ ڈائریکٹر پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی افتخار مروت، چیئرمین ٹکسٹ بک بورڈ عابداللہ کاکاخیل، مینیجنگ ڈائریکٹر ای ایس ایف قیصر عالم، مینجنگ ڈائریکٹر مرجڈ ایریاز ایجوکیشن فاؤنڈیشن فریحہ پال، ڈائریکٹریس ایجوکیشن ناہید انجم، ڈائریکٹر ڈی پی ڈی مطہر، ڈائریکٹر ڈی سی ٹی ای منصور، چیف پلاننگ آفیسر زین اللہ شاہ، ایجوکیشن ایڈوائزر میاں سعد الدین اور ڈائریکٹر ائی ٹی صلاح الدین کے علاوہ محکمہ تعلیم کے دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ معاون خصوصی محمد عاصم خان نے حکام کو ہدایت جاری کی کہ صوبے کے مختلف اضلاع کے آفسز میں اٹانومی اور پی ٹی سی کے جو فنڈ موجود ہیں ان کو زیر استعمال لانے کے لئے 10 دنوں کے اندر پروپوزل تیار کریں۔ سکولوں میں اضافی کلاس رومز کی تعمیر اور سکولوں میں نا پید سہولیات کی فراہمی پر یہ فنڈ خرچ کریں تاکہ بچوں کو تعلیمی سہولیات مل سکیں۔ اور تمام کاموں کے لئے جلد از جلد ٹائم لائن مکمل کریں تاکہ قیمتی وقت ضائع نہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ حکومت کے گڈ گورننس روڈ میپ اور وژن کے مطابق اصلاحات لائے جائیں اور محکمہ تعلیم کا ہر ذیلی ادارہ ریفارمز پر مشتمل بریفنگ تیار کرے جس کی تکمیل کے لئے ٹائم لائن مقرر ہو۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ محکمہ تعلیم لیٹیگیشن ونگ کو مزید فعال کریں اور میرٹ و انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ معاون خصوصی نے یہ بھی ہدایت کی کہ مدارس کی رجسٹریشن محکمہ تعلیم کا مینڈیٹ ہے اس لیے ہوم اور انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ بیٹھ کر پلان کو حتمی شکل جلد از جلد دی جائے۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی تو محکمہ تعلیم کی طرف سے شروع کردہ کلی کچہریوں کو صوبے کے تمام اضلاع تک توصیع دی جائے اور اس میں کیے گئے فیصلوں اور مسائل کی نشاندہی اور حل کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے ٹیکسٹ بک بورڈ حکام کو ہدایت کی کہ تعلیمی سال کے آغاز کے پہلے دن بچوں کے ہاتھ میں مفت درسی کتابوں کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز اور ای ایم اے کی رپورٹس کے مطابق کتابوں کی چپائی کا عمل مکمل ہو اور کوئی اضافی کتابیں نہیں چپنا چاہئے۔ انہوں نے ای ایس ای ایف حکام کو ہدایت کی کہ آن لائن سکولنگ، ٹیلی تعلیم، پوہہ اور آن لائن کلاسز کے آغاز پر کام جلد از جلد مکمل کرے۔ اور وہ عنقریب خود اس کا باضابطہ افتتاع کریں گے۔ اور کامیاب پائلٹ کو پھر صوبے کے دیگر اضلاح تک توصیع دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ جن ماڈل سکولز کے بورڈ ممبران کا دورانیہ پورا ہو چکا ہے نئے ممبران کی تعیناتی کی منظوری کے لئے کیسز فورا بھیج دی جائے اور ماڈل سکولز کے غیر ضروری احراجات کو کم کیا جائے۔ معاون خصوصی برائے تعلیم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ہمارے 34 ہزار 784 سرکاری سکولز, 3 ہزار 556 گرلز کمیونٹی سکولز اور 1378 اے ایل پی سینٹرز کے علاوہ 2 ہزار 154 بیکس اور این سی ایچ ڈی سینٹرز ہیں۔ جبکہ 11 ہزار 542 نجی سکولوں کو بھی ہم مانیٹر کر رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں تقریبا چھ ملین بچے پڑھ رہے ہیں اسی طرح گرلز کمیونٹی سکولوں میں 25 ہزار، اے ایل پی سینٹرز میں 46 ہزار، بیکس اور این سی ایچ ڈی سینٹرز میں 90 ہزار اور نجی سکولوں میں تقریبا تین ملین بچے زیر تعلیم ہیں۔ اسی طرح سرکاری اسکولوں میں ایک لاکھ 85 ہزار اساتزہ, گرلز کمیونٹی سکولوں میں 5 ہزار 600 اساتذہ, اے ایل پی سینٹرز میں 1378 اساتذہ، بیکس میں 2700 اور نجی سکولوں میں ایک لاکھ 31 ہزار 434 اساتذہ بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ جبکہ 10 کیڈٹ کالجز اور 19 ماڈل سکولز بھی محکمہ تعلیم کی طرف سے بچوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ محکمہ تعلیم کا کل بجٹ 311.896 ارب روپے ہے۔ جس میں ضم اضلاع کے لئے 51.863 ارب روپے، بندوبستی اضلاع کے لئے 311.896 ارب روپے شامل ہیں۔ بجٹ میں امسال 11 فیصد اضافہ ہوا ہے اور موجودہ تعلیمی بجٹ صوبے کے کل بجٹ کا 21 فیصد ہے۔ انہیں مزید بتایا گیا کہ کل جاری سکیمیں 67 ہیں جن میں خیبر پختونخوا کے 37، ضم اضلاع کے 14 اور اے ائی پی کے 16 منصوبے شامل ہیں۔ جس کے لیے 12.580 ارب روپے مختص ہیں۔ نئے منسوبوں میں خیبر پختونخوا کے 20، ضم اضلاع کے 4, اور اے آئی پی کے 5 منصوبوں بشمول کل منصوبوں کی تعداد 29 ہے۔ اور اس کے لیے 737 ارب روپے مختص ہیں۔ اسی طرح جاری اور نئے منصوبوں کی کل تعداد 96 ہے۔ نئے پی سی ون 29 ہیں جن میں 9 پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کئے گئے ہیں۔ بجٹ کے حوالے سے انہیں بتایا گیا کہ خیبر پختون خواہ کو 3701 ملین، ضم اضلاع کو 736.61 ملین, اور اے ائی پی کو 828 ملین ریلیز کئے جا چکے ہیں۔ جبکہ سپلیمنٹری گرانٹ ایک ارب روپے اور ضم اضلاع کو بھی ایک ارب روپے ریلیز ہو چکے ہیں۔