سابق فاٹا (ضم شدہ اضلاع) کا مالیاتی انضمام قابل تقسیم پول میں شامل کیا جائے۔اس اقدام سے بوجھ صوبوں پر منتقل ہوگا اور وفاقی حکومت کو ریلیف ملے گا۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم

صوبوں کے درمیان افقی تقسیم (آبادی، ریونیو، غربت اور ریورس آبادی کثافت) کو بہتر یا از سرِ نو تشکیل دیا جائے۔ مشیر خزانہ مزمل اسلم
نان ڈویژ نل پول میں شامل وسائل کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ جنہیں وفاق بطور سبسڈیز بغیر کسی معیار کے صوبوں کو منتقل کرتا ہے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم
وزیراعلی خیبرپختونخوا کے مشیر برائے خزانہ مزمل اسلم نے گیارویں این ایف سی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق فاٹا (ضم شدہ اضلاع) کا مالیاتی انضمام ڈویژ ایبل پول میں شامل کیا جائے جبکہ اس وقت ضم شدہ اضلاع کو وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی گرانٹس ملتی ہیں اور اس اقدام سے بوجھ صوبوں پر منتقل ہوگا اور وفاقی حکومت کو ریلیف ملے گا۔ ان خیالات کا اظہار مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے گزشتہ روز اپنے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کیا۔ مزمل اسلم نے کہا کہ چھوٹے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے تحفظات دور ہونے کی امید ہے اور صوبوں کے درمیان افقی تقسیم (آبادی، ریونیو، غربت اور ریورس آبادی کثافت) کو بہتر یا از سرِ نو تشکیل دیا جائے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ نئے افقی عوامل موسمیاتی تبدیلی، آبی وسائل، آبادی پر قابو، صوبائی سطح پر ریونیو اکٹھا کرنا اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس جیسے چیزیں شامل ہونی چاہیے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ نان ڈویژ ایبل پول میں شامل وسائل کا دوبارہ جائزہ لیا جائے جنہیں وفاق بغیر کسی معیار کے سبسڈیز کی صورت میں صوبوں کو منتقل کرتا ہے اس میں چھوٹے صوبوں کو بڑے صوبوں کی نسبت کم حصہ ملتا ہے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ وہ اخراجات جو وفاق کے ذمے نہیں بنتے لیکن وہ اٹھا رہا ہے، انہیں مکمل طور پر صوبوں کو منتقل کیا جائے۔ اور ریونیو ٹو جی ڈی پی اور خاص طور پر ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں بہتری کے لیے نئے ذرائع کی نشاندہی کی جائے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ پی ایف سی پر سنجیدہ بحث اور موجودہ حیثیت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے مقامی حکومتوں پر موجودہ اخراجات صوبائی بجٹ میں بالادست ہیں کم از کم خیبرپختونخوا میں تو ایسے ہیں مگر ترقیاتی پہلو مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں۔ مزمل اسلم نے کہا کہ پی ایف سی کے اپنے ذرائع آمدن (پراپرٹی، میونسپل اور ایکسائز ٹیکس) صوبائی ہیڈ کوارٹرز (کراچی، لاہور اور پشاور) سے آگے تقریباً نظرانداز ہیں۔ یہ تمام صوبوں اور نتیجتاً مقامی حکومتوں کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتے ہیں۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ وفاقی اخراجات کی تنظیمِ نو اور منطقی تشکیل، جو وفاقی حکومت کی مالیاتی نظم و ضبط کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی حالیہ کرپشن ڈائیگنوسٹک رپورٹ میں نشاندہی کردہ مالی بے ضابطگیاں دور کرنے سے وفاق کو اضافی وسائل مل سکتے ہیں بجائے اس کے کہ 57.5، 41.5 اور 1 فیصد عمودی تقسیم کو چھیڑا جائے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ صوبہ وار آبادی کا آزادانہ آڈٹ کیا جائے ان سب کے علاؤہ مزید نکات بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پسماندہ علاقوں کو باقی پاکستان کے برابر لایا جائے۔ بے ضابطگیاں دور کی جائیں اور وفاقی اخراجات کے دباؤ میں کمی لائی جائے۔ اس کے لیے ڈیٹا پر مبنی نقطہ نظر اپنانا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں