یونیورسٹی آف پشاور میں دو روزہ سمپوزیم”یوتھ فار کلائمٹ ایکشن: ایمپاور، اینگیج، اینڈیور” کے موقع پر ماہرین نے نوجوانوں کو ماحولیاتی تحفظ میں قائدانہ کردار دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ سمپوزیم شعبہ کرمنالوجی نے کمیونٹی ورلڈ سروس ایشیا، پاکستان پارٹنرشپ انیشی ایٹو اور یونیورسٹی آف پشاور اسٹوڈنٹس سوسائٹیز کے اشتراک سے بزنس انکیوبیشن سینٹر، یونیورسٹی آف پشاور میں منعقد کیا۔سمپوزیم کے مہمانِ خصوصی وائس چانسلر یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب خان تھے۔ انہوں نے نوجوانوں کے سماجی کردار، بے چینی، قوانین پر کمزور عملدرآمد اور شناخت کے بحران پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوامل نوجوانوں کی ماحولیاتی ذمہ داری میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر نعیم قاضی، پرو وائس چانسلر یونیورسٹی آف پشاور نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے فرد کی سطح پر ذمہ داری اپنانے پر زور دیا اور سالانہ شجرکاری مہمات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ڈائریکٹوریٹ آف اسپورٹس اینڈ یوتھ افیئرز کے ایڈیشنل سیکرٹری سید عبداللہ شاہ نے ماحولیاتی تحفظ کو مذہبی اور سماجی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے بتایا کہ نظرثانی شدہ یوتھ پالیسی میں تعلیم، روزگار، شمولیت اور ماحولیات کو چار بنیادی ستونوں کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر انور عالم نے نوجوانوں میں موسمیاتی چیلنجز اور ماحولیاتی برداشت سے متعلق شعور پر گفتگو کی۔ماحولیاتی تبدیلی کے ماہر اور سابق ڈائریکٹر شعبہ? ماحولیاتی علوم ڈاکٹر حزب اللہ نے موسمیاتی تبدیلی، فضائی آلودگی اور گرین ہاؤس گیسز کے درمیان تعلق پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ون بلین ٹریز سونامی، گرین کیریئر لانچ پیڈ اور گرین گروتھ انیشی ایٹو جیسے منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تحقیق کی کمی اور موجودہ تحقیق کی عوام تک محدود رسائی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ڈائریکٹر ماحولیاتی تحفظ ایجنسی خیبر پختونخوا حبیب جان نے کہا کہ مثبت رویوں میں تبدیلی کے لیے ذمہ داری اور احساسِ ملکیت ضروری ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ نوجوانوں کو پالیسی سازی میں مرکزی کردار دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ماحولیاتی مسائل کے حل، فنڈنگ کی ضرورت، گرین کاروبار، کچرے کے بہتر انتظام اور پانی کے تحفظ پر بھی بات کی۔سمپوزیم کے دوران پینل ڈسکشن کی نظامت ڈاکٹر مشتاق احمد جان، اسسٹنٹ پروفیسر، سینٹر فار پری پیئرڈنس اینڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ، یونیورسٹی آف پشاور نے کی، جس میں نوجوانوں کے موسمیاتی بحران سے نمٹنے میں کردار پر گفتگو کی گئی۔سینئر صحافی کاشف سید نے اپنے ذاتی تجربات شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنے آبائی علاقے میں 500 درخت لگائے اور یونیورسٹی آف پشاور میں بھی شجرکاری مہمات کی قیادت کی، اور عملی سطح پر انفرادی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔بزنس انکیوبیشن سینٹر کے فوکل پرسن ڈاکٹر شکیل خان نے نوجوانوں کو قومی ترقی کا اہم حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آگاہی اور مؤثر نوجوانوں کی قیادت میں منصوبوں کے ذریعے انہیں متحرک کیا جانا چاہیے۔اختتامی کلمات میں شعبہ? کرمنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر بشارت حسین نے مہمانوں، مقررین اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ماحولیاتی تحفظ کا آغاز فرد کی اپنی ذمہ داری سے ہوتا ہے۔ آخر میں شیلڈ تقسیم کی گئی اور گروپ فوٹو کے ساتھ سمپوزیم اختتام پذیر ہوا۔
