وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے یونیورسٹی آف پشاور میں منعقدہ تین روزہ نیشنل کریمینالوجی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جرم ایک ایسا عنصر ہے جو ہمیشہ معاشروں کا حصہ رہا ہے اور رہے گا۔ انہوں نے کہا، ”کوئی بھی معاشرہ ایسا نہیں جہاں جرم مکمل طور پر ختم ہو چکا ہو۔” انہوں نے مزید وضاحت کی کہ معاشرتی ترقی کے ساتھ نئے عوامل پیدا ہوتے ہیں جو مختلف اقسام کے جرائم کو جنم دیتے ہیں۔بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے اس بات پر زور دیا کہ کامیاب معاشرے وہ ہیں جو جرائم کی روک تھام کے لئے مؤثر اقدامات اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں احتساب کے مؤثر نظام کی عدم موجودگی پر افسوس کا اظہار کرتیہوئے کہا کہ ”یہ افسوسناک ہے کہ پاکستان میں قانون سازی کے وقت متعلقہ ماہرین سے مشاورت نہیں کی جاتی۔ قوانین اچانک لاگو ہو جاتے ہیں اور عوام کو معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کون اور کیوں متعارف کروا رہا ہے۔”26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم بھی بغیر غور و فکر کے پیش کر دی جاتی ہیں جو کہ ایک تشویشناک مسئلہ ہے۔صحافیوں سے گفتگو کے دوران بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے موجودہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومتیں عوامی نمائندے نہیں ہیں۔ ان کا زیادہ تر فوکس عوامی فلاح کی بجائے ان لوگوں کو خوش کرنے پر ہے جنہوں نے انہیں اقتدار میں لایا ہے۔صوبے کی امن و امان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے مشیر اطلاعات نے کہا کہ خیبرپختونخوا کو امن و امان کے چیلنجز کا سامنا ہے، مگر ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف بھرپور انداز میں سرگرم ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد ہر حال میں جاری رکھی جائے گی۔کانفرنس میں وائس چانسلر یونیورسٹی آف پشاور پروفیسر ڈاکٹر قاضی نعیم، پروفیسر ڈاکٹر جوہر علی (ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز)، صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسیت رخشندہ ناز، سیکرٹری ٹورازم خیبرپختونخوا ڈاکٹر بختیار اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی اور شرکاء سے خطاب کیا۔