صوبائی حکومت اپنی انشورنس کمپنی بنانے پر غور کر رہی ہے جو صوبے کی پہلی انشورنس کمپنی ہوگی جو صحت کارڈ پلس سمیت متعدد انشورنس اقدامات کیلئے کام کرے گی۔ مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم
صحت کارڈ پلس کے علاج میں مزید شفافیت لانے کیلئے بائیو میٹرک ویری فیکیشن کا نظام لا رہے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی بدعنوانی کا اندیشہ نہ ہو۔ مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم
صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے محکمہ خزانہ کا ایک اہم اجلاس چیئر مین و ممبر صوبائی اسمبلی ارباب محمد عثمان خان کی زیر صدارت پشاور میں منعقد ہوا جس میں مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم، ممبران صوبائی اسمبلی شفیع اللہ، اشفاق احمد خان نے شرکت کی جبکہ خصوصی دعوت پر ممبران صوبائی اسمبلی نثار باز اور عبدالمنعیم نے شرکت کی۔ اس موقع پر سیکرٹری فنانس عامر سلطان ترین، سپیشل سیکرٹری فنانس بجٹ خدا بخش، سپیشل سیکرٹری فنانس ریگولیشن عابد اللہ کاکا خیل، سی ای او صحت کارڈ ڈاکٹر ریاض تنولی سمیت متعدد حکام نے شرکت کی اجلاس میں ایجنڈے کے مطابق صحت کارڈ پلس، شانگلہ ھائیڈرو پاور منصوبہ فنڈز، پرونشل فنانس کمیشن، محکمہ معدنیات کی رائیلٹی اور سالانہ ترقیاتی پروگرام بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنی انشورنس کمپنی بنانے پر غور کر رہی ہے جو صوبے کی پہلی انشورنس کمپنی ہوگی جو صحت کارڈ پلس سمیت متعدد انشورنس اقدامات کیلئے کام کرے گی۔ مزمل اسلم نے کہا کہ صحت کارڈ پلس کیلئے 30 ارب روپے سے زائد نو مہینوں میں جاری کر چکے ہیں جس سے صوبے کے غریب عوام کو مفت علاج کی سہولت جاری ہے اور یہ وہی صوبہ ہے جس سے یہ سہولت نگران حکومت کے دور میں ختم کی گئی تھی۔ مزمل اسلم نے کہا کہ صحت کارڈ پلس کے علاج میں مزید شفافیت لانے کیلئے بائیو میٹرک ویری فیکیشن کا نظام لا رہے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی بدعنوانی کا اندیشہ نہ ہو۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے اجلاس کو بریفینگ دیتے ہوئے کہا کہ مارچ 2024 نگران دور حکومت میں صوبائی حکومت کے ساتھ ایک مہینے کے تنخواہ کے فنڈز نہیں تھے جبکہ اب صوبائی حکومت کی بہترین انتظامی اور کفایت شعاری کے اقدامات کی بدولت صوبائی خزانہ بہترین پوزیشن پر ہے۔ سی ای او ڈاکٹر ریاض تنولی نے کہا کہ صحت کارڈ پر زیادہ ایڈمیشنز اور پروسیجر سب سے زیادہ سرکاری ہسپتالوں میں ہوتے ہیں اور صحت کارڈ پلس پر سب سے زیادہ دل کی بیماریوں کے علاج کیے جاتے ہیں جس وجہ سے سب سے زیادہ فنڈز پورے صوبے میں پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو جاتے ہیں۔