تحریر: ڈاکٹر انجینئر محمد اطہر سوری
9 نومبر 2025 کو پاکستان کے عظیم مفکر اور شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی سالگرہ کے موقع پر پختونخوا ریڈیو کوہاٹ FM 92.4 MHz نے ایک تاریخی اور فکری لحاظ سے وزنی براہِ راست پروگرام نشر کیا جس نے نہ صرف کوہاٹ بلکہ اس کے گرد و نواح میں بھی ایک نئی قومی اور فکری لہر دوڑائی۔ اس پروگرام نے سامعین کو علامہ اقبال کے اصل پیغام سے دوبارہ جوڑا اور ریڈیو کے کردار کو ایک فکری رہنما کے طور پر اجاگر کیا۔
پختونخوا ریڈیو کوہاٹ کے اس پروگرام کی سب سے نمایاں اور قابلِ فخر بات یہ تھی کہ یومِ اقبال کی عام تعطیل کے باوجود پختونخوا ریڈیو کوہاٹ کا پورا عملہ اور سٹاف حب الوطنی اور پیشہ ورانہ لگن کے جذبے سے دفتر میں موجود رہا۔ یہ عملی مثال ہے کہ جب قومی نظریات اور اقدار کے فروغ کی بات آئے تو حقیقی محنت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اور پختونخوا ریڈیو کوہاٹ کے عملے نے اسے عملی شکل میں ثابت کیا۔
پروگرام کا آغاز علامہ اقبال کے مشہور اور انقلابی اشعار کے ترنم سے ہوا جن کے بول سامعین کے دل و دماغ میں اتریں
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ اشعار علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کی اصل روح کو اجاگر کرتے ہیں اور سامعین کو اپنے اندر خوداعتمادی، حوصلہ اور قومی فخر پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس ترنم نے پروگرام کے آغاز ہی میں ایک بلند فکری معیار قائم کر دیا جس نے پورے نشریاتی سلسلے کو متاثر کیا۔
اس پروگرام میں ریڈیو کے دو اہم ستون اسٹیشن مینیجر ڈاکٹر انجینئر محمد اطہر سوری اور انجینئر صادق نے نہایت نمایاں کردار ادا کیا۔ دونوں نے اپنی گہری فکری بصیرت اور فنی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے علامہ اقبال کی زندگی، ان کی لازوال شاعری اور فلسفہ خودی پر جامع اور بامعنی روشنی ڈالی۔ انہوں نے واضح کیا کہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے خود احتسابی اور عملِ پیہم ناگزیر ہیں۔
یہ خصوصی براہِ راست نشریات نہ صرف ریڈیو کے روایتی سامعین بلکہ عوام کی بڑی تعداد کے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ پروگرام کے دوران ٹیلی فون کالز، پیغامات اور سامعین کی بھرپور شرکت نے اس بات کا عملی ثبوت دیا کہ علامہ اقبال کا کلام آج بھی ہمارے اجتماعی شعور کا ایک اہم جزو ہے اور اس سے نوجوان نسل کی فکری تربیت میں مدد ملتی ہے۔
یومِ اقبال کے موقع پر اس پروگرام کی فکری اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں صرف شاعری یا ترنم پر زور نہیں دیا گیا بلکہ علامہ اقبال کے فلسفہ خودی، ان کے نظریاتِ پاکستان اور مسلمانوں کے لیے عملی رہنمائی پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ اس فکری جہت نے پروگرام کو نہایت وزنی اور معتبر بنا دیا اور سامعین میں فکری بحث و مباحثے کی راہ ہموار کی۔
پروگرام کے دوران ملک کی موجودہ صورتحال اور نوجوانوں کے چیلنجز کو بھی اجاگر کیا گیا۔ اسٹیشن مینیجر نے کہا کہ آج کے دور میں نوجوانوں کے لیے علامہ اقبال کے پیغام کی اہمیت پہلے سے زیادہ ہے۔ خودی کا فلسفہ، قومی اتحاد اور مقصدِ زندگی کی وضاحت آج کے نوجوانوں کو راہِ راست دکھانے کے لیے لازمی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوان معاشرتی، اقتصادی اور علمی ترقی میں حصہ لے کر نہ صرف اپنے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
نشریاتی پروگرام میں شریک دیگر ماہرین اور ریڈیو کے عملے نے بھی علامہ اقبال کے نظریات اور خیالات کو عملی مثالوں سے جوڑ کر پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے معاشرتی بیداری، قومی یکجہتی اور خود اعتمادی کے اصول نوجوانوں کو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی مضبوط کر سکتے ہیں۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ نوجوان اگر اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں اور محنت و لگن سے کام کریں تو وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے معاشرے کے لیے بھی روشن مستقبل تخلیق کر سکتے ہیں۔
پروگرام میں علامہ اقبال کے اشعار اور ان کے فلسفہ خودی کے اثرات کو معاشرتی مسائل، تعلیم اور نوجوانوں کی تربیت سے جوڑ کر پیش کیا گیا تاکہ سامعین یہ سمجھ سکیں کہ اقبال کا پیغام صرف شاعری یا فلسفہ تک محدود نہیں بلکہ عملی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ریڈیو کے یہ فکری اقدامات اس بات کا مظہر ہیں کہ عوام کو قومی اور فکری تربیت دینے کے لیے جدید نشریاتی وسائل کو کس طرح موثر انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ براہِ راست نشریات صرف معلومات تک محدود نہیں رہیں بلکہ سامعین کے درمیان بات چیت، سوالات اور جوابات کے ذریعے ایک فعال اور بامعنی فورم کی شکل اختیار کر گیا۔ ٹیلی فون کالز، ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامعین نے بھرپور شرکت کی جس نے پروگرام کو ایک عوامی سطح پر حقیقی فکری تبادلہ خیال میں بدل دیا۔ اس فورم نے یہ واضح کیا کہ ریڈیو آج بھی عوام کی سوچ اور شعور کو متاثر کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
پروگرام کا اختتام وطن سے محبت، قومی اتحاد اور اتفاق کی دعاؤں کے ساتھ ہوا۔ علامہ اقبال کے درجات کی بلندی اور ان کی روح کے ایصالِ ثواب کے لیے خصوصی دعا بھی کی گئی۔ اختتام پر پیش کیا گیا یہ شعر امید افزا اور دل کو چھو لینے والا تھا
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
یہ شعر نہ صرف علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ آج کے معاشرتی حالات میں بھی ایک پیغام دیتا ہے کہ مثبت سوچ، جذبہ اور عمل کے ذریعے ہر بحران اور چیلنج کو ممکنات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
یومِ اقبال کا یہ شاندار پروگرام پختونخوا ریڈیو کوہاٹ کی نشریاتی تاریخ کا ایک درخشاں باب بن گیا ہے۔ اس پروگرام نے نہ صرف قومی وقار کو اجاگر کیا بلکہ فکری پختگی، معاشرتی شعور اور نوجوانوں کی تربیت کے لیے ایک مثالی کردار ادا کیا۔ پروگرام کے ذریعے یہ واضح ہوا کہ ریڈیو صرف خبروں یا تفریح تک محدود نہیں بلکہ ایک ایسا فکری اور تعلیمی فورم بھی ہے جو عوام کو شعور، آگاہی اور عمل کے لیے متحرک کر سکتا ہے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ اس پروگرام نے یہ بھی ثابت کیا کہ قومی اور فکری بیداری کے لیے جدت اور روایت کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔ پختونخوا ریڈیو کوہاٹ نے نہ صرف علامہ اقبال کے پیغام کو زندہ رکھا بلکہ اس کے اثرات کو عوام تک پہنچانے میں اپنی مکمل کامیابی بھی حاصل کی۔ ایسے پروگرام نوجوانوں کو قومی شعور، خودی کے فلسفہ اور حب الوطنی کے اصولوں سے روشناس کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور یہ یقین دلانے میں مدد دیتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی اور فکری نشوونما کا دارومدار نوجوانوں کی تربیت اور قومی اقدار کی مضبوطی پر ہے۔
