خیرپختونخواہ سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے کا اصل حل

تحریر: انجینئر محمد اطہر سوری

اگر کسی قوم کے چند افراد اپنے ضمیر کا سودا کر لیں، بے شرمی کا لباس اوڑھ لے ، اور ترقی کے خوابوں پر رشوت کا پردہ ڈال دیں، تو وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ پاکستان کا دل اور پختونوں کی سرزمین، خیبر پختونخوا ، برسوں سے اس سماجی ناسور یعنی بدعنوانی کی لپیٹ میں رہی ہے۔ یہ محض مالی غبن نہیں، بلکہ یہ ریاست اور عوام کے درمیان موجود اعتماد کا قتل ہے۔ بدعنوانی دراصل ایک ایسا مہلک ناسور ہے جو کسی بھی صوبے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ عوام کے وسائل کو ان کے مستحق افراد سے چھین کر چند مفاد پرست افراد کی جیبوں میں منتقل کر دیتی ہے، جس کے نتیجے میں تعلیمی معیار، صحت کی سہولیات، امن، انسانیت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی رک جاتی ہے۔ ایسے نازک حالات میں، جہاں امن و معیشت کی پائیداری سب سے بڑی ضرورت ہو، بدعنوانی کے خلاف یہ جنگ دراصل صوبے کی تقدیر اور نسلوں کی بقا کا فیصلہ کن معرکہ ہے۔
انسدادِ بدعنوانی محض جذباتی نعرہ نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ اور ٹھوس عزم ہے جس کا مقصد عوامی اختیار کے ناجائز استعمال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اس کا بنیادی ہدف دیانت داری، شفافیت، اور انصاف پر مبنی ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جہاں میرٹ کو ہی سب سے بڑی سفارش سمجھا جائے۔ یہ کوششیں صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہر شہری کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لعنت کے خلاف اپنی آواز بلند کرے۔

بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا نے اس جنگ کو جیتنے کی خاطر کئی مثالی اور انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔
صوبائی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (ACE) کو سیاسی دباؤ سے آزاد کر کے مضبوط کیا گیا ہے تاکہ وہ احتساب بلا امتیاز کو یقینی بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، نظام میں موجود بدعنوانی کی سب سے بڑی جڑ، یعنی لینڈ ریکارڈز کو، مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنے کا عمل جاری ہے۔ اس اقدام نے پٹوار خانوں میں صدیوں سے رائج رشوت خوری اور دھوکہ دہی کی بنیاد کو ختم کرنے کی شروعات کر دی ہے۔
اس کے علاوہ حکومت خیبر پختونخوا نے ٹیکنالوجی کو بدعنوانی کے خلاف کلیدی ہتھیار بنایا ہے۔ ای-گورننس اور آن لائن سروسز کے ذریعے شہریوں اور سرکاری اہلکاروں کے درمیان براہ راست رابطے کو کم کیا گیا ہے، جس سے رشوت ستانی کے مواقع خود بخود کم ہوئے ہیں۔
مزید برآں، مضبوط رائٹ ٹو انفارمیشن قانون نے عام شہریوں کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ حکومتی اداروں سے ان کے فنڈز کے استعمال اور فیصلوں کے بارے میں سوال کر سکیں۔ یہ قانون عوام کو حکومتی فیصلوں کا نگہبان بناتا ہے، جس سے خود بخود جوابدہی کا کلچر پروان چڑھتا ہے۔
یہ اقدامات قابل تعریف ہے۔ اِسکے علاوہ اور بھی بہت سے وفاقی اور صوبائی ڈیپارٹمنٹ بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنے کے خلاف جہاد کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں ابھی تک بدعنوانی کا جڑ سے خاطمہ ممکن نہ ہو سکا۔
میرے خیال میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ پاکستان کے کئی سرکاری محکموں، خاص کر صوبہ خیبر پختونخوا میں یکساں سروس سٹرکچر، پروموشن کے مساوی مواقع، اور سکیل کے مطابق تنخواہ میں تضاد ایک سنگین بد انتظامی ہے۔ جب ایک ہے حکومت میں ایک ہی ملک یا صوبہ میں ہائی کوالیفائید، قابل اور ذہین ملازمین طویل عرصے تک ایک ہی سکیل میں پھنسے رہتے ہیں اور ان کی محنت کا صلہ نہیں ملتا تو وہ مایوسی، احساسِ کمتری اور محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ذہنی دباؤ اور ناانصافی انہیں اپنے اخلاقی اصولوں سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے، اور انصاف سے محروم یہ افراد بدعنوانی کو اپنے مالی اور معاشرتی خلا کو پُر کرنے کا ذریعہ سمجھ کر اختیار کر لیتے ہیں۔
لہٰذا، بدعنوانی صرف رشوت یا وطن کے اثاثوں کو نقصان پہنچانے تک محدود نہیں بلکہ ناقص سروس سٹرکچر، تنخواہوں میں تضاد، غیر منصفانہ پروموشن، اور مواقع کی عدم دستیابی بھی اسے فروغ دیتی ہے۔ جب نظام خود ناانصافی پر مبنی ہو تو وہ دیانت دار ملازمین کو بھی بدعنوانی کی طرف دھکیلتا ہے، جس سے ملک کی ترقی کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور یہ ایک شیطانی چکر بن جاتا ہے۔
اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے تمام محکموں میں یکساں قوانین پر مبنی سروس سٹرکچر کا نفاذ، سکیل اور عہدے کے مطابق تنخواہوں میں یکسانیت، پروموشن کے عمل میں مکمل شفافیت اور ڈیجیٹلائزیشن، اور صلاحیت کی بنیاد پر بروقت ترقی کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف دیانت دار ملازمین کو تحفظ دیں گے بلکہ بدعنوانی کے فروغ کا راستہ بھی ہمیشہ کے لیے بند کر دیں گے۔لہٰذا، آئندہ 9 دسمبر کے عالمی یومِ انسدادِ بدعنوانی کے موقع پر، خدمات کے ڈھانچے اور تنخواہوں میں موجود اِن تضادات کو کم کرنے کی حکمت عملی پر ضرور غور و خوض ہونا چاہیے، کیونکہ یہی بدعنوانی کے بنیادی محرکات کو ختم کر سکتی ہے۔

موجودہ وزیر اعلیٰ جناب محمد سہیل آفریدی کا مضبوط موقف ہے کہ حکومت بدعنوانی کے لیے صفر رواداری کی پالیسی اپنائے گی۔ ان کا وژن یہ ہے کہ عوام کے پیسے کا ایک ایک روپیہ انتہائی دیانت داری اور شفافیت کے ساتھ ان کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو۔ ان کی اولین ترجیح انتظامی امور کی ڈیجیٹل تبدیلی اور قانون کی بالادستی ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ صوبے کو نئی اور روشن جہتوں پر لے جانے کے لیے پُرعزم ہیں۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر ہم بدعنوانی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں تو اس کے حیرت انگیز فوائد پوری قوم کو حاصل ہوں گے۔ سب سے پہلے، ملک کا قومی خزانہ مضبوط ہو گا اور بچ جانے والے وسائل تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا اور صوبے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں، انشاء اللہ، خیبر پختونخوا میں حکومتی رٹ مضبوط ہو گی، تنخواہوں میں تضاد کا خاتمہ ہو گا،یکساں سروس اسٹرکچر کے مساوی مواقع ملیں گے ، عوام کو انصاف ملے گا، اور یہ صوبہ امن و خوشحالی کا ایک عظیم گہوارہ بن جائے گا، جو پورے ملک کے لیے ایک مثال ہو گا۔

مزید پڑھیں