سینیٹ آف پاکستان سے حال ہی میں منظور ہونے والی قرارداد نمبر 594 محض ایک رسمی کارروائی نہیں بلکہ پاکستان کے فکری، سماجی اور سیاسی مستقبل کی سمت متعین کرنے والی ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ قرارداد دراصل ایک قومی عہد کی تجدید ہے ۔ایسا عہد جو اس ملک کی بنیاد رکھنے والے اصولوں اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے وژن سے جڑا ہوا ہے۔ آج جب معاشرہ انتہا پسندی، تقسیم، نفرت اور عدم برداشت کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے اس وقت یہ قرارداد ایک ایسی روشنی ہے جو پاکستان کو ایک پُرامن، مستحکم اور جمہوری معاشرے کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔
قرارداد 594 کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے 11 اگست 1947 کے تاریخی خطاب کو قومی نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ نئی نسل اس ملک کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھ سکے۔ وہ تاریخی خطاب جس میں قائداعظم نے مذہبی آزادی اور شہری مساوات کے دو بنیادی اصول بیان کیے تھے۔ ان کا واضح پیغام تھا کہ آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ اپنی مسجدوں یا ریاست پاکستان میں کسی بھی دوسری عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم سب ایک ریاست کے مساوی شہری ہیں۔
یہ الفاظ نہ صرف پاکستان کی نظریاتی اساس ہیں بلکہ آج کے دور میں ان کی معنویت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے ان رہنما اصولوں کو وقت کے ساتھ فراموش کر دیا۔ مذہب، نسل، زبان اور مسلک کے نام پر معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا چلا گیا۔ یہی وہ لمحہ ہے جب قرارداد 594 ہمیں یاد دلاتی ہے کہ پاکستان کا وجود کسی خاص عقیدے کے غلبے کے لیے نہیں بلکہ ایک برابر حقوق رکھنے والے شہریوں کے آزاد وطن کے طور پر عمل میں آیا تھا۔
قرارداد میں قائداعظم کے خطاب کو نصاب تعلیم میں شامل کرنے کی سفارش اس لیے نہایت اہم ہے کہ معاشرتی اصلاح ہمیشہ تعلیم سے ہی شروع ہوتی ہے۔ ہماری نئی نسل اگر آغاز ہی سے رواداری، مساوات اور احترامِ انسانیت جیسے اصولوں کو سمجھ لے تو مستقبل میں نفرت، انتہا پسندی اور تعصب کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں میں تاریخ کو اکثر مخصوص نظریات کے تحت پیش کیا گیا جس سے قوم فکری انتشار کا شکار ہوئی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ نئی نسل کو قائداعظم کا اصل پیغام پڑھایا جائے تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ برداشت اور شمولیت (Inclusivity) ہی پاکستان کی اصل روح ہے۔
قرارداد 594 میں بین المذاہب ہم آہنگی اور عوامی آگاہی مہمات کے آغاز پر زور دیا گیا ہے۔ یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کیونکہ پچھلی کئی دہائیوں میں معاشرہ مذہبی اور مسلکی تقسیم کے باعث بے پناہ نقصان اٹھا چکا ہے۔ عبادت گاہوں پر حملے، نفرت انگیز تقاریر، اور مذہب کے نام پر تشدد نے معاشرتی ہم آہنگی کو بری طرح متاثر کیا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست، تعلیمی ادارے، میڈیا اور سول سوسائٹی مل کر ایک ایسی مہم چلائیں جو عام شہری کو یہ سکھائے کہ اختلافِ رائے دشمنی نہیں بلکہ ترقی کا ذریعہ ہے۔ مختلف مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں کا احترام ہی وہ ستون ہیں جن پر ایک مضبوط جمہوری معاشرہ کھڑا ہو سکتا ہے۔اسی تناظر میں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے پختونخوا ایف ایم ریڈیو کوہاٹ سے نشر ہونے والے ایک مقبول پروگرام میں قرارداد 594 پر تفصیلی مکالمہ ہوا، جس میں سامعین نے بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ عوامی سطح پر اس قرارداد پر بحث و مباحثہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی معاشرہ فکری بیداری کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
قرارداد کا پیغام واضح ہے امن، برداشت اور مساوات۔ مگر یہ اہداف اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جب ریاست اور عوام دونوں اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی سے نبھائیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے قوانین اور پالیسیاں مرتب کرے جو تمام شہریوں کے لیے انصاف اور مواقع کی مساوات یقینی بنائیں۔ دوسری جانب عوام کا فرض ہے کہ وہ افواہوں اور تعصبات سے بالاتر ہو کر قابلِ اعتماد ذرائع سے معلومات حاصل کریں اور اختلافِ رائے کو برداشت کرنا سیکھیں۔میڈیا کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا وہ طاقتور ذریعہ ہے جو معاشرے کے رویے تشکیل دیتا ہے۔ اگر میڈیا برداشت، احترام اور مثبت مکالمے کو فروغ دے تو معاشرہ خودبخود انتہا پسندی سے دور ہوتا جائے گا۔
اگر اس قرارداد کے پیغام پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو پاکستان کو سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مذہبی اور نسلی تفریق بڑھنے سے سماجی اعتماد ختم ہو جائے گا۔ تقسیم زدہ معاشرے میں تعلیم، سرمایہ کاری، اور انسانی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں نوجوان مایوسی اور انتہا پسندی کا شکار ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر بھی ایک عدم برداشت پر مبنی معاشرہ اپنی ساکھ کھو دیتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک آج اس لیے آگے ہیں کہ انہوں نے انسانی برابری اور قانون کی بالادستی کو اپنی ریاستی پالیسی کا محور بنایا۔ پاکستان کو بھی اگر عالمی برادری میں ایک مثبت تشخص برقرار رکھنا ہے تو اسے قائداعظم کے بیانیے کی روشنی میں اپنے راستے درست کرنے ہوں گے۔
پاکستان کا اصل بیانیہ مذہب کی بنیاد پر نفرت نہیں بلکہ انسان دوستی اور مساوات ہے۔ قائداعظم کے وژن میں پاکستان ایک ایسی ریاست تھی جہاں ہر شہری کو اس کی مذہبی یا نسلی شناخت سے قطع نظر برابری کا درجہ حاصل ہو۔قرارداد 594 اسی بیانیے کو از سرِ نو زندہ کرتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگر ہم نے اپنے بانی کے اصولوں کو پسِ پشت ڈالا تو ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہوں گے جہاں نہ امن بچے گا، نہ ترقی۔ لیکن اگر ہم نے اس قرارداد کے پیغام کو اپنایا تو پاکستان ایک بار پھر روشن، متحد اور جمہوری ملک بن سکتا ہے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قرارداد 594 پاکستان کے لیے ایک فکری اور نظریاتی تجدیدِ عہد ہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے رویے، بیانیے اور پالیسیوں پر ازسرِنو غور کریں۔اگر ریاست، ادارے، تعلیمی نصاب، میڈیا اور عوام سب اس قرارداد کے بنیادی پیغام یعنی تحمل، انصاف، مساوات اور احترامِ انسانیت پر متفق ہو جائیں تو ہم اپنے مسائل کے باوجود ایک پُرامن اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
قائداعظم کے پاکستان کا خواب اب بھی ممکن ہے بشرطِ یہ کہ ہم اپنے نظریاتی انحرافات کو درست کر کے ان کے قول و فعل کی روشنی میں ایک نئے عہد کا آغاز کریں۔ قرارداد 594 کی حمایت دراصل ایک سیاسی عمل نہیں بلکہ ایک قومی ذمہ داری ہے ایک ایسا عزم جو ہمیں ایک بہتر، منصف اور پُرامن پاکستان کی طرف لے جا سکتا ہے۔
تحریر: اطہر سوری,سٹیشن منیجر,پختونخوا ریڈیو کوہاٹ
