ہزارہ ڈویژن کی جامعات میں این ایف سی ایوارڈ اور صوبائی مالیاتی حقوق سے متعلق آگاہی سیمینارز کا انعقاد

ہزارہ ڈویژن کی دو بڑی جامعات؛ یونیورسٹی آف ہری پور اور ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ، صوبائی شیئرز اور مالی مسائل سے متعلق آگاہی سیمینارز منعقد ہوئے۔ ان سیمینارز کا مقصد عوام اور خصوصاً طلبہ کو صوبائی وسائل، این ایف سی شیئرز اور مالی چیلنجز سے آگاہ کرنا تھا تاکہ ہر طبقہ فکر صوبے کے جائز مالی حقوق کے حصول کے عمل میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔
یونیورسٹی آف ہری پور میں منعقدہ سیمینار سے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن، چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس ڈاکٹر احتشام، معروف صحافی رفعت اللہ اورکزئی اور یونیورسٹی آف پشاور کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان اشرف نے خطاب کیا۔وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن نے کہا کہ مضبوط مالی نظم و نسق ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ کے اثرات، برین ڈرین اور آبادی کی نقل مکانی جیسے مسائل سے دوچار ہے، جس سے صوبے کی معیشت مسلسل دباؤ کا شکار رہی ہے۔ڈاکٹر احتشام نے این ایف سی ایوارڈ کے ڈھانچے، تشکیل اور متعلقہ امور پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آئندہ ہفتے 11واں این ایف سی ایوارڈ متوقع ہے، مگر چھوٹے صوبوں کو اکثر پروجیکٹڈ تخمینوں سے کم وسائل ملتے ہیں۔ انہوں نے صوبوں پر زور دیا کہ وہ وفاقی محصولات پر انحصار کم کرتے ہوئے اپنے مالی وسائل بڑھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فعال بینکنگ سسٹم اور زرعی اجناس — خصوصاً تمباکو — کو صوبائی سطح پر منظم کرنے سے خیبر پختونخوا کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ وفاق کے ذمہ خیبر پختونخوا کے ایک ہزار ارب روپے سے زائد واجبات ہیں۔ صوبہ سالانہ 20 ارب یونٹ پن بجلی پیدا کرتا ہے جبکہ اپنی ضرورت صرف 10 ارب یونٹ ہے، مگر سستی بجلی کا فائدہ صوبے کو پوری طرح نہیں مل رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئل کی رائلٹی گزشتہ 12 سال سے صوبے کو نہیں دی گئی، جبکہ چشمہ لفٹ کینال منصوبے کی تاخیر کی وجہ سے خیبر پختونخوا کا پانی دیگر صوبوں کو منتقل ہو رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبے کے این ایف سی شیئر میں دہشت گردی کے نقصانات کے پیش نظر اضافہ ناگزیر ہے۔ڈاکٹر عرفان اشرف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سلک روٹ خطے کی ترقی کا اہم ذریعہ رہاہے۔ اگر اس روٹ کے پوٹینشل کو پوری طرح استعمال کیا جائے تو خیبر پختونخوا سمیت پورا پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہو سکتا ہے۔
ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سیمینار
ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں سیمینار کے ریسورس پرسن ڈاکٹر عادل سیماب (ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ، پولیٹیکل سائنس) نے کہا کہ خیبر پختونخوا دہشت گردی کے خلاف جنگ، جغرافیائی حساسیت اور قبائلی اضلاع کے انضمام جیسے بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے باعث شدید مالی دباؤ کا شکار ہے۔ ضم شدہ اضلاع کی بحالی، سکیورٹی کی بہتری، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور سماجی سہولیات کی فراہمی کے لیے اضافی مالی وسائل کی ضرورت ہے، جس کے لیے صوبے کو این ایف سی میں اپنا مؤثر مؤقف پیش کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو ملکی مالیاتی ڈھانچے، صوبائی حقوق اور آئینی تقاضوں سے باخبر ہونا چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں مضبوط معاشی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اکرام اللہ خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف لکی مروت کے گیس ذخائر ملک کی 70 فیصد ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مؤثر منصوبہ بندی کے ذریعے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ وائس چانسلر نے یہ بھی بتایا کہ یونیورسٹی میں مائنز اینڈ منرلز پروگرام شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تاکہ معدنی وسائل پر تحقیق کو فروغ دیا جا سکے۔سیمینار میں یونیورسٹی کی تمام فیکلٹیز کے ڈینز، پروفیسرز، انتظامی افسران اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں