خیبر پختونخوا کے آئینی حقوق کے لیے ایک بہادرانہ مقدمہ

تحریر: ڈاکٹر انجینئر اطہر سوری

​اسلام آباد کا ہال! وہ مقام جہاں ملک کے مالیاتی فیصلے ہوتے ہیں، اور ہر صوبہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتا ہے۔ عام طور پر یہ اجلاس رسمی ہوتے ہیں، مگر 4 دسمبر 2025 کو فضا میں ایک خاص قسم کا برقی تناؤ تھا، جو کسی غیر معمولی واقعے کا پیش خیمہ تھا۔ میز پر اعداد و شمار اور قانون کی کتابیں رکھی تھیں، مگر اس کے پیچھے کروڑوں پاکستانیوں، بالخصوص غیور پختونوں کا مقدر داؤ پر تھا۔ ایک طرف مرکز کی بوجھل مالیاتی پالیسیاں تھیں، تو دوسری طرف خیبر پختونخوا کے وہ زخم تھے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی دہائیوں پرانی قیمت ادا کر رہے تھے۔
​جب خیبر پختونخوا کے نوجوان اور پرعزم وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے مائیک سنبھالا تو ہال میں چھائی سرد خاموشی اچانک ایک فتح مند گرج میں بدل گئی۔ ان کا لہجہ لچکدار مگر حق پرستی کی طاقت سے لبریز تھا۔ وہ محض ایک سیاسی لیڈر نہیں، بلکہ عوامی وکیل کے طور پر آئے تھے، جو اپنے ساتھ صرف کاغذات نہیں، بلکہ اپنے صوبے کی شاندار تاریخ، عظیم قربانیوں اور روشن مستقبل کے خواب لے کر آئے تھے۔
​ایک اچھا لیڈر وہی ہوتا ہے جو جہاں بھی جاتا ہے، خوب تیاری اور اپنی ٹیم سے بھرپور مشاورت کے بعد جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے بھی نیشنل فائنانس کمیشن کے اجلاس میں آنے سے پہلے تمام مالی ماہرین، یونیورسٹیز کے طلباء، اساتذہ کرام اور ٹیم کے ساتھ ہفتوں مشاورت کی، اور سوچ سمجھ کر وطن اور قوم کے آئینی حقوق اور خوشحالی کی بات کی، جس سے ان کا مؤقف ناقابلِ تردید اور مضبوط چٹان کی طرح بن گیا۔

​یہ بات تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی کہ ملک کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ تھا کہ کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ نے محض مطالبہ کرنے کے بجائے، اتنی ٹھوس، مدلل اور جامع تیاری کے ساتھ اپنے صوبے کے آئینی حقوق کے لیے وفاق کے سامنے مقدمہ پیش کیا، اور صوبائی خودمختاری کی ایک نئی بنیاد رکھی۔

​انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز ایک ایسی للکار سے کیا جس نے پورے ملک کی توجہ کھینچ لی: “جناب چیئرمین! ہم اس میز پر بھیک مانگنے یا رعایت لینے نہیں آئے ہیں۔ ہم اپنے آئینی حق کے حصول کے لیے یہاں سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ خیبر پختونخوا نے گزشتہ دو دہائیوں میں پوری قوم کی سیکیورٹی کی وہ قیمت ادا کی ہے جس کا تصور بھی محال ہے۔ ہم نے اپنے بازار، اپنے گھر اور اپنے پیارے کھوئے ہیں۔ کیا ان عظیم قربانیوں کا کوئی مالیاتی اعتراف بھی ہوگا یا نہیں؟
​یہ مقدمہ صرف سرکاری اہلکاروں کا نہیں تھا وزیراعلیٰ نے نہایت خوبی سے صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں کے یکجا موقف کو پیش کیا، جس نے وفاقی حکام کو یہ پیغام دیا کہ صوبے کے حقوق کے معاملے پر خیبر پختونخوا مکمل طور پر متحد ہے، اور یہی اتحاد ان کی سب سے بڑی طاقت تھی۔

​وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی قیادت ایک ایسے ماڈل کے طور پر ابھری جہاں سیاست صرف اقتدار کی جنگ نہیں، بلکہ اصولی مؤقف، شفافیت اور عوامی مفاد کی عظیم خدمت ہے۔ انہوں نے اپنے مقدمے کا سب سے مضبوط حصہ نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع پر مرکوز کیا اور ان کا مقدمہ دلائل کی قوت سے جیتا۔

​انہوں نے پوری وضاحت سے بتایا کہ ان اضلاع کو خیبر پختونخوا میں شامل ہوئے کئی سال ہو چکے ہیں، مگر ان کی ترقی کے لیے مختص 100 ارب روپے سالانہ کا وعدہ تاحال پورا نہیں ہوا۔ انہوں نے مرکز کو چیلنج کیا کہ یہ علاقے اب پاکستان کی مرکزی دھارے کا حصہ ہیں اور انہیں NFC فارمولے میں مکمل طور پر ضم کیا جائے۔ یہ پیسہ صرف تعمیرات کے لیے نہیں، بلکہ لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو امن کی معیشت میں شامل کرنے اور انہیں قلم اور کتاب تھمانے کی ضمانت ہے۔

​وزیر اعلیٰ نے خالص ہائیڈل منافع کے بقایاجات کا معاملہ بھی پوری قوت سے اٹھایا، جو صوبے کا قانونی حق ہے۔ انہوں نے اس معاملے پر جذباتی بیان بازی کے بجائے آئینی اور قانونی دلائل کی طاقت کو استعمال کیا، اور مرکزی حکومت کے لیے ان واجبات کو مزید نظر انداز کرنا ناممکن بنا دیا۔
​سہیل آفریدی کا مقدمہ صرف فنڈز کے حصول تک محدود نہیں تھا۔ انہوں نے ایک واضح ویژن دیا کہ ہر اضافی روپیہ ترقی، خوشحالی اور پائیدار امن کی طرف ایک ٹھوس قدم ثابت ہوگا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ یہ فنڈز تعلیمی وظائف، صحت کے منصوبوں اور چھوٹے کاروباروں کی ترقی پر خرچ ہوں گے، جو براہ راست عام آدمی کی زندگی میں انقلاب لائیں گے۔

​آخر میں، اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے اس تاریخی اجلاس میں صرف ایک مقدمہ نہیں جیتا، بلکہ انہوں نے پورے صوبے کو یہ فخر محسوس کرایا کہ ان کا حق مانگنے والا ایک نڈر اور مضبوط وکیل موجود ہے۔ یہ مقدمہ مرکز اور صوبوں کے درمیان مالیاتی تعلقات کے ایک نئے اور مثبت دور کی بنیاد ہے، اور توقع کی جاتی ہے کہ مرکزی حکومت بھی اس مقدمے کو قومی یکجہتی کے تناظر میں دیکھے گی اور صوبے کے حقوق کی مکمل ادائیگی کو یقینی بنائے گی۔ یہ ایک ایسی حکمرانی کی جھلک تھی جو عوام کے اعتماد کو مضبوط کرتی ہے، اور پختونخوا کے روشن مستقبل کی نوید سناتی ہے۔

مزید پڑھیں