ضم اضلاع میں زرعی اصلاحات کے ذریعے زییتون کی پیداوار کے فروغ کا جامع منصوبہ

   تحریر: فضل قیوم
اسسٹنٹ ڈائریکٹر انفارمیشن، محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ پشاور
خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت زرعی شعبے میں وسیع اصلاحات متعارف کرا رہی ہے، جن کا مقصد زراعت کو جدید ٹیکنالوجی اور عالمی معیار سے ہم آہنگ کرتے ہوئے پیداوار اور معاشی استعداد میں اضافہ کرنا ہے۔ ان اصلاحات کے تحت ضم اضلاع میں زیتون کی جدید باغبانی کو فروغ دینا ایک اہم ترجیح ہے، جو مقامی موسم اور مٹی کی مناسبت سے نہ صرف موزوں ہے بلکہ معاشی طور پر بھی دیہی معیشت کے لیے ایک مستحکم متبادل ذریعہ فراہم کرتی ہے۔یہ منصوبہ کسانوں کی آمدن میں اضافہ، تربیت اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
اسی مقصد کے لیے صوبائی حکومت نے دو ارب روپے کی لاگت کا ایک جامع منصوبہ شروع کیا ہے جس کے ذریعے ضم اضلاع میں جدید باغبانی، تیل دار اجناس کی کاشت اور زرعی پیداوار میں اضافے پر کام جاری ہے۔ اس منصوبے کے تحت مقامی وسائل کو بہتر استعمال کرتے ہوئے پائیدار معاشی ترقی اور زرعی خود کفالت کو فروغ دینا مقصود ہے۔ یہ منصوبہ خطے کو ایک ایسے معاشی ماڈل کی طرف لے جانے میں مدد دے گا جو کم لاگت، بلند پیداوار اور طویل المدتی فائدے کی بنیاد رکھتا ہے۔
منصوبے کے تحت ضم اضلاع میں 14 ہزار 20 ایکڑ رقبے پر نئے زیتون کے باغات لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جن میں سے 2 ہزار 900 ایکڑ رقبے پر نصب کاری مکمل ہو چکی ہے۔ یہ باغات موسمی حالات کے لحاظ سے نہ صرف دیرپا ثابت ہوں گے بلکہ مستقبل میں خطے کی زرعی معیشت کا اہم ذریعہ  بھی بنیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ 13 لاکھ جنگلی زیتون کے پودوں کو اعلیٰ معیار کی تیل دینے والی اقسام میں تبدیل کرنے کا ہدف بھی رکھا گیا ہے، جن میں سے 4 لاکھ 14 ہزار پودوں کی گرافٹنگ باجوڑ، خیبر، اورکزئی اور جنوبی وزیرستان میں مکمل کی جا چکی ہے۔ گرافٹنگ کا یہ عمل خطے میں موجود جنگلی زیتون کے وسیع ذخیرے کو معاشی طور پر مؤثر بنائے گا۔
اگلے مالی سال 2025-26 میں 1500 ایکڑ پر مزید باغات لگائے جائیں گے اور چار لاکھ جنگلی پودوں کی گرافٹنگ کی جائے گی۔چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کی ہدایات اور“گڈ گورننس روڈ میپ”کے تحت اس منصوبے میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔ ضم اضلاع میں 1,50,000 جنگلی زیتون کے پودوں کی اعلیٰ قلمکاری مکمل کر لی گئی ہے، جس کے مثبت نتائج عنقریب سامنے آنا شروع ہو جائیں گے. ان سرگرمیوں سے ضم اضلاع میں زیتون کی کاشت کا رقبہ اور پیداوار بڑھانے میں مدد ملے گی۔ نئے لگائے گئے اور گرافٹ شدہ درخت چھ سال بعد پھل دینا شروع کریں گے، جنہیں مختلف مراکز پر لے جا کر جدید یونٹس میں پراسیس کیا جائے گا۔ حکام کے مطابق یہاں سے تیار ہونے والا زیتون کا تیل ایکسٹرا ورجن معیار کا ہوگا، جس کی عالمی منڈی میں بلند قیمت ہونے کی وجہ سے کسانوں کی آمدن میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔
یہ منصوبہ خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینے، دیہی روزگار بڑھانے اور خصوصی طور پر خواتین و نوجوانوں کے لیے باغبانی و پروسیسنگ کے شعبوں میں مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ زیتون کا درخت کم پانی، موسمیاتی تبدیلی اور مٹی کے کٹاؤ کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت رکھتا ہے، جبکہ اس کی اوسط عمر 1000 سال تک ہونے کے باعث یہ ایک طویل المدتی اور پائیدار سرمایہ کاری ہے۔
صحت کے اعتبار سے زیتون کا تیل دل کے امراض، کولیسٹرول اور ذیابیطس کے خطرات کو کم کرنے میں مددگار ہے، جبکہ اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس قوتِ مدافعت میں اضافہ کرتے ہیں۔ عالمی منڈی میں اسے ایک قیمتی زرعی جنس سمجھا جاتا ہے جو خوراک کے علاوہ ادویات اور کاسمیٹکس میں بھی وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ اس لیے زیتون کی کاشت اور تیل کی پیداوار نہ صرف مقامی بلکہ قومی سطح پر غذائی تحفظ اور اقتصادی برآمدات کے لیے  بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
 ضم اضلاع میں زیتون کی کاشتکاری معاشی طور پر ”گیم چینجر“ ثابت ہو سکتی ہے، جو مستقبل میں علاقے کو زیتون کی قومی پیداوار کے اہم مرکز میں تبدیل کر دے گی۔ منصوبے کی تکمیل سے جدید باغبانی، زرعی تحقیق اور مسابقتی زرعی مصنوعات کو فروغ ملے گا، جس سے نہ صرف کسانوں کی آمدن بڑھے گی بلکہ صوبے کی مجموعی معیشت بھی مضبوط ہوگی۔ یہ منصوبہ پائیدار ترقی، معاشی استحکام اور ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت تصور کیا جا رہا ہے، جس کے ثمرات آنے والے برسوں میں واضح طور پر سامنے آئیں گے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ضم اضلاع میں پیدا ہونے والا زیتون کا تیل ایکسٹرا ورجن معیار کا ہوگا۔ جو صحت کے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ طبی لحاظ سے زیتون کا تیل دل کے امراض، کولیسٹرول، ذیابیطس اور موٹاپے کے خطرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامنز جسم کے خلیات کو نقصان سے محفوظ رکھتے ہیں، قوت مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں اور بڑھتی عمر کے اثرات کو کم کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں“مدیٹرینین ڈائیٹ”کی کامیابی کی وجہ بھی زیتون کے تیل کا باقاعدہ استعمال سمجھا جاتا ہے، جس سے انسان کی مجموعی صحت بہتر ہوتی ہے۔
معاشی لحاظ سے زیتون کا تیل عالمی منڈی میں سب سے زیادہ قیمتی زرعی مصنوعات میں شمار ہوتا ہے. ضم اضلاع میں زیتون کی پیداوار تجارتی سطح پر مستحکم ہو جائے تو اس سے نہ صرف کسانوں کی آمدن میں اضافہ ہوگا بلکہ صوبے کو ایک نئے زرعی برآمداتی شعبے کی تشکیل کا موقع بھی ملے گا۔ مزید یہ کہ زیتون کا درخت ماحول دوست سمجھا جاتا ہے، جو مٹی کے کٹاؤ کو روکتا ہے، جنگلاتی ماحول کو بحال کرتا ہے اور گرین ہاؤس گیسز میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح زیتون کی کاشت صحت، معیشت اور ماحول تینوں لحاظ سے ایک پائیدار حل فراہم کرتی ہے۔
 حکومت کا یہ منصوبہ مستقبل میں ضم اضلاع کو زیتون کی قومی پیداوار کا اہم مرکز بنا سکتا ہے، جو مقامی ترقی کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کے لیے بھی اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

مزید پڑھیں