ٹیکنالوجی کے اِس دور میں بھی ریڈیو کا وقار برقرار ہے

تحریر: ڈاکٹر انجینئر محمد اطہر سوری

ترقی اور ٹیکنالوجی کے اُس دور میں، جہاں اسمارٹ فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے دنیا کو ایک عالمی بستی بنا دیا ہے یہ سوچنا مشکل لگتا ہے کہ روایتی ذرائع ابلاغ اب بھی اپنی جگہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ مگر حقیقت اس تصور کے برخلاف ہے۔ آج بھی پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا جیسے خطوں میں ریڈیو نہ صرف زندہ ہے بلکہ لوگوں کی روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پختونخوا ریڈیو FM 92.4 کوہاٹ اپنی ذمہ داری، عوامی خدمت اور موثر پیغام رسانی کے ذریعے اس دور میں بھی اپنا مقام مزید مضبوط کرتا جا رہا ہے۔

اس کا وسیع نشریاتی دائرہ جنوبی خیبر پختونخوا کے کئی اہم اضلاع تک پھیلا ہوا ہے۔ کوہاٹ اور کرک کے تقریباً تمام علاقے، ہنگو کے بڑے حصے، ڈی آئی خان کے کچھ مقامات اور ضم شدہ ضلع اورکزئی کے دور افتادہ علاقےخصوصاً ڈبوری جیسی وادیوں تک یہ آواز پہنچتی ہے۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق صرف ان چار اضلاع کی مجموعی آبادی 30 لاکھ سے زائد ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو روزانہ اپنی زمینی حقیقتوں، مسائل، ثقافت اور قومی معاملات سے باخبر رہنے کے لیے پختونخوا ریڈیو پر انحصار کرتے ہیں۔

یہ حقیقت بھی کم دلچسپ نہیں کہ جہاں بڑے شہروں کے لوگ اب بھی ریڈیو کو گاڑیوں میں سفر کے دوران یا صبح کے معمولات کے ساتھ سنتے ہیں وہاں جنوبی خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقوں میں ریڈیو آج بھی معلومات تک رسائی کا واحد موثر ذریعہ ہے۔ کمزور انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز کی کمی، یا نیٹ ورک کے مسائل کی وجہ سے ان علاقوں میں ریڈیو کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ریڈیو نہ صرف عوام کی آواز بنتا ہے بلکہ ان کی سماعتوں تک حکومت کی پالیسیوں، فلاحی اقدامات اور ترقیاتی منصوبوں کی درست معلومات بھی پہنچاتا ہے۔

پختونخوا ریڈیو کوہاٹ روزانہ 15 گھنٹے کی نشریات پیش کرتا ہے یہ کوئی چھوٹی ذمہ داری نہیں۔ صبح 7 بجے سے رات 10 بجے تک مسلسل، منظم اور معیاری پروگرامنگ کے ذریعے سامعین کو خبروں، تعلیم، مذہب، ثقافت، موسیقی، معلومات، خوشگوار تفریح اور عوامی مسائل جیسے موضوعات پر مسلسل آگاہ رکھا جاتا ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو ریڈیو کو ایک بھرپور، زندہ اور عوامی ادارہ بناتے ہیں۔

صبح کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت اور پشتو ترجمے سے ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف روحانی سکون کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ ریڈیو کے اس اصول کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ نشریات کا اصل مقصد خیرخواہی، علم اور مثبت سوچ کا فروغ ہے۔ اس کے بعد صبح 7 بجے سے 8 بجے تک دین و دنیا نشر ہوتا ہے جو مذہبی رہنمائی، سماجی اصولوں، اخلاقی تربیت اور معاشرتی رویوں کے حوالے سے ایک متوازن اور رہنمائی پر مبنی پروگرام ہے۔

دن کا ایک اہم حصہ خبری مواد پر مشتمل ہے۔ پشتو مقامی خبرنامہ روزانہ صبح 9 بجے نشر ہوتا ہے جبکہ شام 5 بجے اردو میں مقامی خبرنامہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں خبرنامے جنوبی اضلاع کے حالات و واقعات کا احاطہ کرتے ہیں، مقامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں، حادثات، ترقیاتی منصوبوں، سرکاری سرگرمیوں اور عوامی مسائل سے متعلق خبروں کو بروقت اور درست انداز میں سامعین تک پہنچاتے ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں جب جعلی خبروں کا سیلاب ہے ریڈیو کا یہی کردار اسے آج بھی معتبر بناتا ہے۔

اسی طرح پختونخوا ریڈیو کوہاٹ کا سب سے زیادہ سنا جانے والا اور عوامی اہمیت کا حامل پروگرام کولی کچہری ہے۔ یہ پروگرام واقعی اس اسٹیشن کی پہچان ہے۔ عوام کو براہِ راست کال کے ذریعے حکام تک پہنچانے کا ایسا موثر ذریعہ بہت کم میڈیا پلیٹ فارمز کے پاس ہے۔ صبح 10:15 سے دوپہر 12 بجے تک نشر ہونے والا یہ پروگرام عوامی مسائل کے فوری حل، شکایات کے ازالے، حکومتی نمائندوں کے جواب دہ ہونے اور عوامی فیڈ بیک کو سرکاری اداروں تک پہنچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس پروگرام میں شامل کالرز اپنی شکایات براہ راست بتاتے ہیں اور حکام ان شکایات کا جواب فوراً دیتے ہیں۔ یہ نہ صرف اعتماد کی فضا پیدا کرتا ہے بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان ایک مضبوط رشتہ بھی قائم کرتا ہے۔

پروگرام پر مختاگ بھی ایک نمایاں نشریاتی حصہ ہے جس میں حکومت کی پالیسیاں، ترقیاتی منصوبے، امن و امان کی صورتحال اور سیاسی و سماجی امور پر گفتگو کی جاتی ہے۔ اس پروگرام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ہر طرح کی منفی پروپیگنڈے کے مقابلے میں ایک متوازن، حقیقت پر مبنی اور تعمیری معلومات فراہم کرتا ہے۔

اس کے علاوہ دوپہر دو بجے سے چار بجے تک نشر ہونے والے پروگرامز میں تعلیم، صحت، نوجوانوں کی رہنمائی، پشتو شاعری اور حجرہ جیسے ثقافتی پروگرام شامل ہیں۔ حجرہ جیسا پروگرام پختون ثقافت کی روح ہے یہ مقامی موسیقی، ادب، روایات اور معاشرتی اقدار کو زندہ رکھتا ہے۔ جدید دور میں بھی ثقافتی شناخت کے اس تسلسل کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور پختونخوا ریڈیو اسے نہایت ذمہ داری سے نبھا رہا ہے۔

ریڈیو صرف ایک نشریاتی ادارہ نہیں یہ ریاست اور عوام کے درمیان ایک ایسا معتبر پُل ہے جس نے کئی دہائیوں سے ہر مشکل وقت میں اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔ یہی حقیقت پختونخوا ریڈیو کو دیگر اداروں سے ممتاز بناتی ہے۔ قومی اور سرکاری مہمات کے لیے تیار کیے گئے 16 فیچر پروگرامز اور ڈرامے اس ادارے کی سنجیدگی اور پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت ہیں۔ چاہے پولیو مہم ہو یا یومِ کشمیر، یومِ اقبال ہو یا 14 اگست ریڈیو نے ایسے معیاری پروگرام پیش کیے جنہوں نے عوامی شعور میں اضافہ کیا اور متحدہ قومی بیانیے کو فروغ دیا۔

پختونخوا ریڈیو کوہاٹ ماہانہ تقریباً 1000 عوامی خدمت کے اعلانات (PSAs) نشر کرتا ہے۔ یہ PSAs نہایت اہم سماجی مسائل پر مبنی ہوتے ہیں جیسے فضائی فائرنگ کی روک تھام، ٹریفک قوانین کی پابندی، صحت عامہ، صفائی، انسانی حقوق، صبر و تحمل اور باہمی احترام۔ اس طرح کی نشریات عوامی سطح پر مثبت تبدیلی اور ذمہ دار شہری ہونے کی طرف ایک مضبوط قدم ہوتی ہیں۔

پختونخوا ریڈیو نہ صرف اپنی بھرپور نشریات کے ذریعے عوام تک معلومات پہنچا رہا ہے بلکہ ترقیاتی منصوبوں، سرکاری پالیسیوں اور امن و امان سے متعلق حقائق بھی سامنے لا رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ یہ کسی ایک طبقے یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ مختلف زبانوں پشتو، اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے ذریعے ہر اُس شخص تک پہنچ رہا ہے جو اس سرزمین کا حصہ ہے۔

آج جب لوگ موبائل اسکرینوں میں گم ہیں اور سوشل میڈیا پر گمراہ کن معلومات کا دور دورہ ہے ریڈیو اب بھی ایک صاف، سادہ، غیر جانبدار اور قابلِ اعتماد ذریعہ ہے۔ اس کی آواز نہ صرف گھروں میں گونجتی ہے بلکہ پہاڑی وادیوں، کھیتوں، سفر کے راستوں، دکانوں، چائے خانوں اور دفاتر میں بھی سنائی دیتی ہے۔ یہی قبولیت اور اعتماد ریڈیو پختونخوا کوہاٹ کو آج کے جدید دور میں بھی باوقار بنا رہی ہے۔

ٹیکنالوجی نے جن روابط کو تیز تر کیا ہے ریڈیو نے انہیں مضبوط اور معتبر بنایا ہے۔ یہ پلیٹ فارم اب بھی وہ کام کر رہا ہے جو ڈیجیٹل میڈیا کے بہت سے ادارے نہیں کر پاتے سچائی، توازن، ثقافت، عوامی خدمت اور ریاستی بیانیے کو ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھانا۔

آخر میں یہی کہنا موزوں ہے کہ ریڈیو کی آواز کبھی مدھم نہیں ہوتی یہ وقت کے ساتھ مزید پختہ ہوتی جاتی ہے۔ پختونخوا ریڈیو FM 92.4 کوہاٹ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر ادارہ اپنی نیت، پیشہ ورانہ مہارت اور عوامی ذمہ داری سے اخلاص رکھے تو جدید ٹیکنالوجی بھی اس کے وقار کو کم نہیں کر سکتی۔ بلکہ ایسے ادارے آج کے دور میں پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہو گئے ہیں کیونکہ قومیں صرف بڑی اسکرینوں سے نہیں بلکہ سچی آوازوں سے بنتی ہیں۔

مزید پڑھیں