وزیر صحت سید قاسم علی شاہ نے منگل کو صوبہ بھر کے ہسپتالوں میں پختونخوا کے عوام کیلئے صحت کارڈ پلس کے تحت مُفت علاج کی سہولیات کی بحالی سے متعلق پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2015 میں صحت کارڈ کا آغاز صوبے کے چار اضلاع سے کیا گیا تھا۔ 2020 میں پورے صوبے تک توسیع پر صحت کارڈ کاسالانہ خرچہ 18 ارب روپے تھا۔ اس موقع پر ان کیساتھ چیف ایگزیکٹیو صحت سہولت پروگرام ڈاکٹر ریاض تنولی اور ڈائریکٹر پروگرام ڈاکٹر اعجاز بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیر صحت سید قاسم علی شاہ نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ الحمداللہ خیبرپختونخوا میں صحت کارڈ کی خدمات بحال ہوچکی ہیں۔ پختونخوا کے عوام کیلئے مُختلف النوع سپیشلیٹیز کے 118 سرکاری و نجی ہسپتالوں میں 1800 مختلف بیماریوں کا مُفت علاج شروع ہوچکا ہے۔ انکے مطابق منگل دن بارہ بجے تک سات سو مریضوں کے داخلے پر ایک کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں، یہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ویژن تھا جو کہ آج دوبارہ بحال ہوگیا، اس وقت اوسطا تین ارب روپے ماہانہ صحت کارڈ کے اخراجات ہیں۔ بحالی کے بعد ہسپتالوں میں صحت کارڈ کے تمام کاؤنٹرز کھول دیے گئے ہیں اور حکومت کی جانب سے اس حوالے سے انشورنس کمپنی کو 5 ارب روپے جاری کردیے گئے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ نگران حکومت نے صحت کارڈ بند کرکے غریب عوام کا نقصان کیا۔نگران حکومت کے دورانیہ میں توسیع نے اسے مزید نقصان پہنچایا۔صحت کارڈ ایک جُزوقتی نہیں بلکہ دیر پا پروجیکٹ ہے۔وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی رہنمائی میں صوبہ خیبرپختونخوا ترقی کے نئے ادوار دیکھے گا۔محکمہ صحت نے ’صحت سہولت پروگرام‘ کے پینل پر موجود اسپتالوں کی باضابطہ فہرست جاری کردی ہے، جس کے مطابق مریضوں کو 118 اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگی۔ایک سوال کے جواب میں وزیر صحت نے بتایا کہ صحت کارڈ میں اووربلنگ و دیگر بے قاعدگیوں کو روکھنے کیلئے صحت کارڈ کے تحت چند آپریشنز سرکاری ہسپتالوں تک محدود کردئے گئے ہیں۔ اسی طرح صحت کارڈ پر کام کرنے والے ہسپتالوں کی تعداد 180 سے کم کرکے 118 کردی گئی ہے۔ سسٹم پر 18 ارب روپے کے بقایاجات چھوڑ کر اسے دوبارہ شروع کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ صوبائی اسمبلی نے ابھی ایک مہینے کے بجٹ کی منظوری دی ہے۔ چیلنجز آتے رہیں گے لیکن عوام کی خاطر ان چیلجنز سے نمٹنا ہے