صحت کی اے ڈی پی سکیموں کیلئے 232 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، 89 جاری اور 32 نئی سکیمیں ہیں،صوبے میں کچھ ہی مہینوں میں ائیر ایمبولینس، برین ٹیومر کے علاج کیلئے گاما نائف ریز سنٹر کا قیام، طالبعلم موسٰی کی حادثاتی موت پر انتہائی افسوس ہے، آئی سی یو بیڈز بڑحارہے ہیں، روبوٹیک سرجریز متعارف کررہے ہیں، موٹر بائیک رسپانس یونٹ، حیات آباد کوہیلتھ سٹی بنارہے ہیں، ایگزیکٹیو ہیلتھ چیک اپ تمام ہسپتالوں میں شروع ہوچکاہے، وزیر اعلٰی جلد افتتاح کرینگے، نوشہرہ ہسپتال ویڈیو سکینڈل میں ملوث افراد کو معطل کردیا ہے: وزیر صحت سید قاسم علی شاہ کا پریس کانفرنس کے دوران اظہار خیال
وزیر صحت سید قاسم علی شاہ نے محکمہ صحت کے ترقیاتی پروگرام اور دیگر اقدامات بارے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحت کی اے ڈی پی سکیموں کیلئے 232 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں 89 جاری اور 32 نئی سکیمیں شامل ہیں۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ سیکرٹری ہیلتھ محمود اسلم وزیر اور ڈائریکٹرجنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر محمد سلیم اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈاکتر سراج بھی موجود تھے۔ وزیر صحت نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ پہاڑی علاقوں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے صوبے میں کچھ ہی مہینوں میں ائیر ایمبولینس سروس کا آغاز کررہے ہیں۔ برین ٹیومر کے علاج کیلئے گاما نائف ریز سنٹر کا قیام عمل میں لارہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر صحت نے بتایا کہ طالبعلم موسٰی کی حادثاتی موت پر انتہائی افسوس ہے۔آئی سی یو بیڈز بڑحارہے ہیں۔ نوشہرہ ہسپتال ویڈیو سکینڈل میں ملوث افراد کو معطل کردیا ہے۔وزیر صحت نے بتایا کہ روبوٹیک سرجریز متعارف کررہے ہیں جس سے وقت وسائل دونوں کی بچت ہوگی۔ دیہی علاقوں میں ہیلتھ ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے موٹر بائیک رسپانس یونٹ قائم کررہے ہیں جبکہ حیات آباد کوہیلتھ سٹی قرار دینے کیلئے منصوبہ بندی کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بُزرگ شہریوں کے باوقار طریقے سے مفت علاج کیلئے ایگزیکٹیو ہیلتھ چیک اپ تمام ہسپتالوں میں شروع ہوچکاہے جس کا باقاعدہ افتتاح وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور جلد کرینگے۔ سید قاسم علی شاہ نے مزید بتایا کہ اس بجٹ میں ریزرو فنڈ مختص کیا گیا ہے تاکہ کسی کا علاج نہ رکے۔ ہم ڈاکٹروں اور نرسوں کا پول بنارہے ہیں۔ جس میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر ہسپتالوں میں سٹاف کی کمی کو پورا کیا جائے گا۔ ریجنز میں ٹراما سنٹرز بنانے ہیں تاکہ سٹیبل مریض کو ریفر کیا جاسکے۔ مریضوں کا 60 فیصد سے زیادہ بوجھ پشاور کے اسپتالوں پر ہے۔ اسپتالوں میں صرف آئی سی یو بیڈز کو بڑھانا کافی نہیں ہوگا.