وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے سی اینڈ ڈبلیو سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ وہ اپنے حلقے کے اجتماعی بنیادی مسائل کے حل کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہے ہیں اور تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر اور عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا بنیادی ترجیحات میں شامل ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے حلقے کے اجتماعی مسائل کے حوالے سے اپنے دفتر باڑہ میں بلائے گئے حلقے کے مشران اور عمائدین پر مشتمل گرینڈ جرگے کے شرکاء سے خطاب کر تے ہوئے کیا کیا۔اس موقع پر حلقہ پی کے 70 سے تعلق رکھنے والے عمائدین اور تاجر یونین کے عہدیداران نے بھی شرکت کی۔جرگے میں قومی مسائل اور مشکلات کے حوالے سے عمائدین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ قبیلہ شلوبر میں نہری پانی کا بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں ایکڑ زمین بنجر ہو چکی ہے، دوسرا بڑا مسئلہ کرش انڈسٹری کی بندش ہے جس سے علاقے کے ہزاروں لوگ کا روزگار وابستہ تھا جو گزشتہ 17 سالوں سے بند پڑی ہیں جن کی بحالی کے لیے کئی احتجاج بھی ہوئے اور اگر کرش انڈسٹری بحال ہو تی ہیں تو علاقے کے ہزاروں گھرانوں کو دوبارہ روزگار مل جائے گا۔جرگے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے سی اینڈ ڈبلیو سہیل آفریدی نے کہا کہ اپنے حلقے کے مسائل سے وہ بخوبی آگاہ ہیں اور باڑہ میں نہری نظام کی بحالی اور حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گای جس میں تمام قبیلوں کی نمائندگی موجود ہوگی اور یہ کمیٹی باقی ماندہ مسائل کے حل کے لئے بھی اقدامات اٹھائے گی، سہیل آفریدی نے کہا کہ کرش انڈسٹری کی بندش بارود کے استعمال پر عائد پابندی کے سبب ہے اور اس پابندی کو ختم کرنے کے لیے صوبائی سطح پر کام جاری ہے جس کا جلد حل نکالا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ باڑہ بائی پاس روڈ اور سراج الدین مدرسہ ٹو برقمبر خیل روڈ کی تعمیر کے لیے فنڈ منظور کردیا ہے جس پر جلد کام شروع کیا جائے گا۔سہیل آفریدی نے کہا کہ کوکی خیل، برقمبر خیل اور شلوبر میں لنکس روڈز کی تعمیر و مرمت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر کام کا آغاز ہو چکا ہے سہیل آفریدی نے کہا کہ تعلیمی نظام کی بہتری پر کام ان کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرائمری سکولوں میں 54 ہزار طلباء زیر تعلیم ہوتے ہیں لیکن جب یہی طلباء میڈل سکولوں میں جاتے ہیں تو ان کی تعداد صرف 8 ہزار تک رہ جاتی ہے اور باقی 46 ہزار ہمارے بچے تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں جس میں محکمہ تعلیم کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی کوتاہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے علاقے کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔