وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت صوبے میں امن و امان کے قیام، قبائلی اضلاع میں شدت پسندی کی روک تھام، صحافیوں کے تحفظ، سانحہ سوات کے متاثرین کی بحالی اور سیاحتی مقامات پر مؤثر اقدامات کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پختونخوا ریڈیو ایف ایم 98 سوات کے پروگرام ” حال احوال” میں میزبان فضل خالق خان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا۔مشیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں امن و امان کی صورتحال تشویشناک ضرور رہی ہے، لیکن حکومت نے پولیس، سی ٹی ڈی اور دیگر اداروں کی استعداد بڑھانے کے لیے بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ شدت پسندی کی نئی لہر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں انٹیلیجنس شیئرنگ بہتر بنائی جا رہی ہے اور مقامی عمائدین کو اعتماد میں لے کر پائیدار امن کی کوششیں جاری ہیں۔ جدید اسلحہ، گاڑیاں، اور تربیت کے لیے وفاقی سطح پر بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔سانحہ دریائے سوات سے متعلق سوال پر انہوں نے تسلیم کیا کہ ابتدائی سطح پر مقامی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی۔ حکومت نے واقعے کی انکوائری رپورٹ حاصل کر لی ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کے لیے مالی امداد فراہم کی گئی ہے، جبکہ ہوٹل مالکان اور غیرقانونی تعمیرات کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔سیاحتی مقامات پر حفاظتی اقدامات کے ضمن میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ حکومت سیاحتی گائیڈ لائنز کو قانونی شکل دینے پر غور کر رہی ہے، تاکہ مقامی انتظامیہ، ہوٹل مالکان اور سیاحوں کے درمیان ایک مربوط نظام قائم کیا جا سکے۔ ریسکیو 1122 کی صلاحیت بڑھانے کے لیے نئے آلات، موبائل ایپ اور تربیتی ورکشاپس متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ صحافیوں کے تحفظ سے متعلق سوالات پر مشیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے انشورنس اسکیم، فلاحی فنڈ اور تربیتی پروگرام شروع کر چکی ہے۔ سوات، وزیرستان اور دیگر حساس علاقوں میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو حفاظتی تربیت اور دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔پروگرام کے آخر میں بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا کہ سوات میں امن و امان کی صورتحال مثالی ہے لیکن اس امن کو قائم رکھنے کیلئے اداروں کے ساتھ معاشرے کے ہر فرد کو بھی کرداراداکرناہوگا۔