کے ایم یوکے زیر اہتمام خیبر پختونخوا کے این ایف سی حصے اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے مالی و انتظامی چیلنجزکے موضوع پر سیمینار کا انعقاد

خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) پشاور کے زیر اہتمام وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایت پر ”خیبر پختونخوا کے این ایف سی حصے اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے مالی و انتظامی چیلنجز“ کے موضوع پر خصوصی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں اساتذہ، ایڈمن سٹاف اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔سیمینار کے مہمانِ خصوصی اور مرکزی مقرر پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی تھے جو سابق چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور، سابق ڈائریکٹر HEARTاور حالیہ پروفیسر شعبہ? پولیٹیکل سائنس، انٹرنیشنل ریلیشنز اور پاکستان اسٹڈیز، قرطبہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ آئی ٹی پشاور ہیں۔ انہوں نے موضوع پر جامع تحقیقی و تجزیاتی گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے آئینی حقوق، وفاقی مالیاتی ڈھانچے کی کمزوریوں اور ضم شدہ اضلاع کے سنگین مسائل کو نہایت تفصیل سے بیان کیا۔انہوں نے کہا کہ آئینِ پاکستان کے تحت نیشنل فنانس کمیشن وفاقی مالیاتی نظام کی بنیاد ہے، جس کے ذریعے وفاق کے قابل تقسیم محاصل میں سے صوبوں کا حصہ طے ہوتا ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ نے آبادی، پسماندگی، صوبائی محصولات، اور آبادی کثافت جیسے معیار مقرر کیے، تاہم اب بھی 82 فیصد وزن آبادی کو دیا جاتا ہے، جس سے چھوٹے صوبے خصوصاً خیبر پختونخوا مالی لحاظ سے مسلسل محرومی کا شکار ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا کئی دہائیوں سے جنگ زدہ صوبہ ہے جہاں دہشت گردی، معاشی بدحالی اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایسے میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے وفاق کی جانب سے اعلان کردہ سالانہ 100 ارب روپے تاحال فراہم نہ کرنا صوبے کے ساتھ سنگین ناانصافی ہے۔ انہوں نے مردم شماری کے نتائج پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کی آبادی کو کم ظاہر کیے جانے سے صوبہ این ایف سی میں اپنے جائز حصے سے محروم کیا جا رہا ہے۔سیمینار میں اس بات پر زور دیا گیا کہ آرٹیکل 160 اور 161 صوبوں کے مالی حقوق کی واضح آئینی ضمانت دیتے ہیں، جس میں خالص ہائیڈل منافع اور گیس و پٹرولیم اور دیگر قدرتی معدنیات کی رائلٹی شامل ہیں، مگر خیبر پختونخوا تاحال اس کے ثمرات پوری طرح حاصل نہیں کرسکا۔ آرٹیکل 172(3) کے مطابق قدرتی وسائل کی ملکیت وفاق اور صوبے کی مشترکہ ہوتی ہے، لہٰذا وسائل کی پیداوار اور آمدن کے شفاف اعداد و شمار صوبوں سے نہیں چھپائے جانے چاہئیں۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی نے کہا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کی فوری تشکیل، مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کے اجلاسوں کی باقاعدگی، اور قومی سطح پر بہتر بین الحکومتی ہم آہنگی ناگزیر ہو چکی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا خیرات نہیں بلکہ اپنا آئینی حصہ مانگتا ہے، اور جب تک منصفانہ وسائل کی تقسیم یقینی نہیں بنائی جاتی قومی یکجہتی اور صوبائی اعتماد ایک چیلنج بنا رہے گا۔سیمینار کے اختتام پر شرکاء نے اس امید کا اظہار کیا کہ خیبر پختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کو ان کے جائز حقوق کی خاطر وفاق اور صوبے باہمی اعتماد، آئینی تقاضوں اور شفاف پالیسی ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کیپر امن حل کی طرف بڑھیں گے۔

مزید پڑھیں