مالیاتی حقوق کے حصول اور عوامی بیداری کی ایک کامیاب مہم

تحریر: ڈاکٹر انجینئر محمد اطہر سوری

آج یکم دسمبر 2025 کو خیبر پختونخوا میں مالیاتی حقوق کے حصول کے لیے ایک غیر معمولی عوامی، علمی اور سیاسی تحریک نے ملکی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ یہ تحریک بنیادی طور پر قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق آگاہی بڑھانے اور صوبے کے جائز مالیاتی حقوق کی فراہمی کے لیے منظم کی گئی تھی اور اس نے نہ صرف عوام بلکہ علمی اور سیاسی حلقوں میں بھی گہرا اثر چھوڑا۔ اس مہم کے دوران سیمینارز، علمی مباحثے اور میڈیا پروگرامز کے ذریعے عوام میں مالیاتی شفافیت، ضم شدہ اضلاع کے مسائل اور صوبے کے مالی حقوق کے حوالے سے شعور پیدا کیا گیا۔

مالیاتی حقوق اور عوامی بیداری کے درمیان تعلق کو سمجھنا اس تحریک کی کامیابی کی کلید ہے۔ خیبر پختونخوا کی عوام طویل عرصے سے اپنے مالیاتی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، خاص طور پر ضم شدہ اضلاع کے مسائل میں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے 2010 کے بعد نئے NFC ایوارڈ کی تعیناتی میں تاخیر نے صوبے کو اربوں روپے کے واجبات سے محروم کر دیا ہے، جس کا اثر ترقیاتی منصوبوں، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع پر براہِ راست پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک نے نہ صرف طلباء بلکہ علمی اور سیاسی حلقوں کو بھی ایک صفحے پر لا کھڑا کیا۔

یہ مہم ایبٹ آباد، پشاور، کرک، ڈیرہ اسماعیل خان اور ضم شدہ اضلاع تک پھیلی ہوئی تھی جس میں خیبر پختونخوا کی تقریباً تمام جامعات نے بھرپور حصہ لیا۔ یونیورسٹی آف سوات، یو ای ٹی مردان، ویمن یونیورسٹی مردان، جامعہ باچا خان، فاٹا یونیورسٹی، ڈیرہ آدم خیل یونیورسٹی اور خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک میں ہزاروں طلباء نے شرکت کی جس نے اس مسئلے پر عوامی شعور کی گہرائی اور طلباء کی سیاسی و سماجی شعور کے ارتقاء کو واضح کیا۔ ان علمی مباحثوں میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرز اور حکام بھی موجود تھے جبکہ سابق چیف سیکرٹری فنانس سید سعید بادشاہ بخاری اور سابق مشیر خزانہ حمایت اللہ خان نے کلیدی خطاب کیے جنہوں نے مالی خودمختاری اور 18ویں ترمیم کے چیلنجز کی اہمیت واضح کی۔

طلباء اور علمی درسگاہ کے علاوہ سیاسی حمایت بھی اس مہم کی کامیابی میں کلیدی عنصر ثابت ہوئی۔ کوہاٹ یونیورسٹی میں ہونے والے سیمینار میں وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی شفیع اللہ جان، سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی اور ڈیڈاک چیئرمین داؤد آفریدی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس سے یہ پیغام گیا کہ صوبائی حکومت ضم شدہ اضلاع کی مالی محرومی اور 4 ہزار ارب روپے کے واجبات کے معاملے پر سنجیدہ ہے۔ اس طرح عوام، علمی حلقے اور سیاسی قیادت ایک مشترکہ موقف پر متفق ہوئے جو 4 دسمبر کو ہونے والے NFC اجلاس کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔

عوامی سطح پر اس آگاہی کو بڑھانے کے لیے میڈیا کا کردار بھی نہایت اہم رہا۔ پختونخوا ریڈیو کوہاٹ اور ریڈیو سوات نے NFC کے معاملے پر دو گھنٹے کا خصوصی پروگرام نشر کیا جو کہ انٹرنیٹ لنک کے ذریعے ریڈیو پختونخوا کرم، ریڈیو پختونخوا وانا اور ریڈیو پختونخوا رزمک سمیت دیگر اسٹیشنز پر براہِ راست سنا گیا۔ اس پروگرام میں سامعین نے بھرپور دلچسپی ظاہر کی اور سوالات و جوابات کے ذریعے مالیاتی حقوق کے معاملے میں اپنی آگاہی میں اضافہ کیا۔ اس اقدام نے نہ صرف عوامی شعور میں اضافہ کیا بلکہ صوبے کی مالی خودمختاری کے لیے ایک طاقتور عوامی مینڈیٹ بھی تشکیل دیا۔

یہ تحریک واضح کرتی ہے کہ مالیاتی حقوق صرف اعداد و شمار یا بجٹ کی بات نہیں بلکہ اس کا تعلق عوام کی روزمرہ زندگی سے ہے۔ جب صوبے کو اس کے واجبات کی ادائیگی نہیں کی جاتی تو ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں بنیادی ڈھانچہ غیر مؤثر رہتا ہے اور عوام کی بنیادی ضروریات جیسے تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہم نے عوامی شعور اور سیاسی دباؤ دونوں پیدا کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

اس تحریک کے دوران اٹھائے گئے کلیدی مطالبات میں خیبر پختونخوا کے 4 ہزار ارب روپے کے واجبات کی فوری ادائیگی، ضم شدہ اضلاع کے لیے 100 ارب روپے سالانہ کے وعدہ شدہ فنڈز کی مکمل فراہمی اور نئے NFC ایوارڈ کے انعقاد کی درخواست شامل تھی۔ یہ مطالبات واضح طور پر یہ پیغام دیتے ہیں کہ صوبے کے ترقیاتی منصوبے، امن و امان اور عوامی خوشحالی کی بنیاد مالیاتی حقوق کی فراہمی پر منحصر ہے۔ اگر یہ حقوق فراہم نہ کیے گئے تو صوبے میں ترقیاتی کاموں کی رفتار سست ہو جائے گی اور عوام میں ناانصافی کا احساس بڑھ سکتا ہے۔

یہ مہم صرف ایک تعلیمی یا سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ ایک مکمل عوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس میں طلباء، علمی ماہرین، سیاسی رہنما، میڈیا اور عوامی نمائندگان نے شرکت کی جس نے صوبے کے ہر طبقے میں مالیاتی حقوق کے حوالے سے شعور پیدا کیا۔ یہ تحریک نہ صرف موجودہ صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ مستقبل میں مالیاتی انصاف کے حصول کے لیے ایک مستحکم بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔

مزید برآں اس مہم نے خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع کے مالی مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔ یہ علاقے طویل عرصے سے وفاقی اور صوبائی مالی وسائل میں مساوی حصہ نہیں لے پائے جس کے نتیجے میں بنیادی ڈھانچے، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع میں شدید کمی رہی۔ اس تحریک نے ضم شدہ اضلاع کے عوام کو بھی یہ پیغام دیا کہ ان کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جا رہا اور ان کے حقوق کے لیے وسیع پیمانے پر آگاہی پیدا کی جا رہی ہے۔

نیشنل مالیاتی کمیشن کے حوالے سے اس مہم کی اہمیت اس میں بھی پوشیدہ ہے کہ یہ صوبائی حکومت کے موقف کو مضبوط کرتی ہے۔ جب عوام، علمی حلقے اور سیاسی قیادت ایک مشترکہ موقف اپنائیں تو وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ صوبے کے جائز حقوق فراہم کرے۔ یہی مشترکہ موقف خیبر پختونخوا کی ترقی، امن و امان اور عوامی خوشحالی کے لیے نہایت اہم ہے۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یکم دسمبر 2025 کی یہ مہم نہ صرف خیبر پختونخوا میں مالیاتی حقوق کے حصول کی ایک کامیاب کوشش تھی بلکہ اس نے عوامی شعور، علمی اور سیاسی حمایت کے ذریعے ایک مضبوط عوامی مینڈیٹ بھی تشکیل دیا۔ یہ تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ جب عوامی آگاہی، علمی بصیرت اور سیاسی حمایت یکجا ہو جائے تو مالیاتی انصاف اور صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے غیر معمولی نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس مہم کی کامیابی مستقبل میں صوبے کی مالی خودمختاری، ضم شدہ اضلاع کے مسائل کے حل اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گی اور یہ یقینی بنائے گی کہ خیبر پختونخوا کے عوام اپنے جائز حقوق کے لیے متحد اور باخبر ہیں۔

مزید پڑھیں