Home Blog Page 18

خیبر بار ایسوسی ایشن کی تقریبِ حلف برداری۔صوبائی وزیر قانون کی بحیثیت مہمان خصوصی شرکت

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کی ہدایت پر صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم ایڈووکیٹ نے ایم پی اے عبدالغنی آفریدی کے ہمراہ ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کا دورہ کیا اور خیبر بار ایسوسی ایشن کی تقریبِ حلف برداری میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔تقریب میں وزیر قانون نے خیبر بار ایسوسی ایشن کی نو منتخب کابینہ اور انصاف لائرز فورم (آئی ایل ایف) کی کابینہ سے حلف لیا اور انہیں مبارکباد پیش کی۔اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئیوزیر قانون آفتاب عالم نے کہا کہ وکلاء برادری لوگوں کو انصاف کی فراہمی اور قانون کی بالادستی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئی کابینہ وکلاء کی فلاح و بہبود اور قانون کی عمل داری کے لیے موثر کردار ادا کرے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ رول آف لاء اور عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا اہم حصہ ہے۔ صوبے میں وکلاء برادری کے جائز مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ سخت سیاسی اور قانونی حالات میں پارٹی کا بھرپور ساتھ دینے پر ہم انصاف لائرز فورم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔تقریب میں خیبر بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران، وکلاء کی بڑی تعداد اور پارٹی رہنما بھی موجود تھے۔

وزیراعلی سہیل آفریدی کا اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا/ معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان کا بیان

بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے رات بھر دھرنا دیا،شفیع جان

وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی پوری رات دھرنے کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے ملاقات کیلئے بھی پہنچے،شفیع جان

بانی چیئرمین عمران خان سے 27 اکتوبر کے بعد کسی کی ملاقات نہیں ہوئی،شفیع جان

وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے ملاقات کیلئے تمام آئینی، قانونی اور جمہوری راستے اختیار کیے، شفیع جان

سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اور پنجاب حکومت خود کو آئین و قانون سے بھی بالاتر سمجھتی ہے، شفیع جان

صوبے کے منتخب وزیر اعلیٰ کے ساتھ پنجاب حکومت کا ناروا سلوک جمہوریت کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے،شفیع جان

وفاق اور پنجاب میں جمہوریت نہیں آمریت کا ماحول نظر آ رہا ہے،شفیع جان

اب عوامی عدالت میں جائیں گے،ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں بچا، شفیع جان

ٹیکنالوجی کے اِس دور میں بھی ریڈیو کا وقار برقرار ہے

تحریر: ڈاکٹر انجینئر محمد اطہر سوری

ترقی اور ٹیکنالوجی کے اُس دور میں، جہاں اسمارٹ فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے دنیا کو ایک عالمی بستی بنا دیا ہے یہ سوچنا مشکل لگتا ہے کہ روایتی ذرائع ابلاغ اب بھی اپنی جگہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ مگر حقیقت اس تصور کے برخلاف ہے۔ آج بھی پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا جیسے خطوں میں ریڈیو نہ صرف زندہ ہے بلکہ لوگوں کی روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پختونخوا ریڈیو FM 92.4 کوہاٹ اپنی ذمہ داری، عوامی خدمت اور موثر پیغام رسانی کے ذریعے اس دور میں بھی اپنا مقام مزید مضبوط کرتا جا رہا ہے۔

اس کا وسیع نشریاتی دائرہ جنوبی خیبر پختونخوا کے کئی اہم اضلاع تک پھیلا ہوا ہے۔ کوہاٹ اور کرک کے تقریباً تمام علاقے، ہنگو کے بڑے حصے، ڈی آئی خان کے کچھ مقامات اور ضم شدہ ضلع اورکزئی کے دور افتادہ علاقےخصوصاً ڈبوری جیسی وادیوں تک یہ آواز پہنچتی ہے۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق صرف ان چار اضلاع کی مجموعی آبادی 30 لاکھ سے زائد ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو روزانہ اپنی زمینی حقیقتوں، مسائل، ثقافت اور قومی معاملات سے باخبر رہنے کے لیے پختونخوا ریڈیو پر انحصار کرتے ہیں۔

یہ حقیقت بھی کم دلچسپ نہیں کہ جہاں بڑے شہروں کے لوگ اب بھی ریڈیو کو گاڑیوں میں سفر کے دوران یا صبح کے معمولات کے ساتھ سنتے ہیں وہاں جنوبی خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقوں میں ریڈیو آج بھی معلومات تک رسائی کا واحد موثر ذریعہ ہے۔ کمزور انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز کی کمی، یا نیٹ ورک کے مسائل کی وجہ سے ان علاقوں میں ریڈیو کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ریڈیو نہ صرف عوام کی آواز بنتا ہے بلکہ ان کی سماعتوں تک حکومت کی پالیسیوں، فلاحی اقدامات اور ترقیاتی منصوبوں کی درست معلومات بھی پہنچاتا ہے۔

پختونخوا ریڈیو کوہاٹ روزانہ 15 گھنٹے کی نشریات پیش کرتا ہے یہ کوئی چھوٹی ذمہ داری نہیں۔ صبح 7 بجے سے رات 10 بجے تک مسلسل، منظم اور معیاری پروگرامنگ کے ذریعے سامعین کو خبروں، تعلیم، مذہب، ثقافت، موسیقی، معلومات، خوشگوار تفریح اور عوامی مسائل جیسے موضوعات پر مسلسل آگاہ رکھا جاتا ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو ریڈیو کو ایک بھرپور، زندہ اور عوامی ادارہ بناتے ہیں۔

صبح کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت اور پشتو ترجمے سے ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف روحانی سکون کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ ریڈیو کے اس اصول کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ نشریات کا اصل مقصد خیرخواہی، علم اور مثبت سوچ کا فروغ ہے۔ اس کے بعد صبح 7 بجے سے 8 بجے تک دین و دنیا نشر ہوتا ہے جو مذہبی رہنمائی، سماجی اصولوں، اخلاقی تربیت اور معاشرتی رویوں کے حوالے سے ایک متوازن اور رہنمائی پر مبنی پروگرام ہے۔

دن کا ایک اہم حصہ خبری مواد پر مشتمل ہے۔ پشتو مقامی خبرنامہ روزانہ صبح 9 بجے نشر ہوتا ہے جبکہ شام 5 بجے اردو میں مقامی خبرنامہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں خبرنامے جنوبی اضلاع کے حالات و واقعات کا احاطہ کرتے ہیں، مقامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں، حادثات، ترقیاتی منصوبوں، سرکاری سرگرمیوں اور عوامی مسائل سے متعلق خبروں کو بروقت اور درست انداز میں سامعین تک پہنچاتے ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں جب جعلی خبروں کا سیلاب ہے ریڈیو کا یہی کردار اسے آج بھی معتبر بناتا ہے۔

اسی طرح پختونخوا ریڈیو کوہاٹ کا سب سے زیادہ سنا جانے والا اور عوامی اہمیت کا حامل پروگرام کولی کچہری ہے۔ یہ پروگرام واقعی اس اسٹیشن کی پہچان ہے۔ عوام کو براہِ راست کال کے ذریعے حکام تک پہنچانے کا ایسا موثر ذریعہ بہت کم میڈیا پلیٹ فارمز کے پاس ہے۔ صبح 10:15 سے دوپہر 12 بجے تک نشر ہونے والا یہ پروگرام عوامی مسائل کے فوری حل، شکایات کے ازالے، حکومتی نمائندوں کے جواب دہ ہونے اور عوامی فیڈ بیک کو سرکاری اداروں تک پہنچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس پروگرام میں شامل کالرز اپنی شکایات براہ راست بتاتے ہیں اور حکام ان شکایات کا جواب فوراً دیتے ہیں۔ یہ نہ صرف اعتماد کی فضا پیدا کرتا ہے بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان ایک مضبوط رشتہ بھی قائم کرتا ہے۔

پروگرام پر مختاگ بھی ایک نمایاں نشریاتی حصہ ہے جس میں حکومت کی پالیسیاں، ترقیاتی منصوبے، امن و امان کی صورتحال اور سیاسی و سماجی امور پر گفتگو کی جاتی ہے۔ اس پروگرام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ہر طرح کی منفی پروپیگنڈے کے مقابلے میں ایک متوازن، حقیقت پر مبنی اور تعمیری معلومات فراہم کرتا ہے۔

اس کے علاوہ دوپہر دو بجے سے چار بجے تک نشر ہونے والے پروگرامز میں تعلیم، صحت، نوجوانوں کی رہنمائی، پشتو شاعری اور حجرہ جیسے ثقافتی پروگرام شامل ہیں۔ حجرہ جیسا پروگرام پختون ثقافت کی روح ہے یہ مقامی موسیقی، ادب، روایات اور معاشرتی اقدار کو زندہ رکھتا ہے۔ جدید دور میں بھی ثقافتی شناخت کے اس تسلسل کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور پختونخوا ریڈیو اسے نہایت ذمہ داری سے نبھا رہا ہے۔

ریڈیو صرف ایک نشریاتی ادارہ نہیں یہ ریاست اور عوام کے درمیان ایک ایسا معتبر پُل ہے جس نے کئی دہائیوں سے ہر مشکل وقت میں اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔ یہی حقیقت پختونخوا ریڈیو کو دیگر اداروں سے ممتاز بناتی ہے۔ قومی اور سرکاری مہمات کے لیے تیار کیے گئے 16 فیچر پروگرامز اور ڈرامے اس ادارے کی سنجیدگی اور پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت ہیں۔ چاہے پولیو مہم ہو یا یومِ کشمیر، یومِ اقبال ہو یا 14 اگست ریڈیو نے ایسے معیاری پروگرام پیش کیے جنہوں نے عوامی شعور میں اضافہ کیا اور متحدہ قومی بیانیے کو فروغ دیا۔

پختونخوا ریڈیو کوہاٹ ماہانہ تقریباً 1000 عوامی خدمت کے اعلانات (PSAs) نشر کرتا ہے۔ یہ PSAs نہایت اہم سماجی مسائل پر مبنی ہوتے ہیں جیسے فضائی فائرنگ کی روک تھام، ٹریفک قوانین کی پابندی، صحت عامہ، صفائی، انسانی حقوق، صبر و تحمل اور باہمی احترام۔ اس طرح کی نشریات عوامی سطح پر مثبت تبدیلی اور ذمہ دار شہری ہونے کی طرف ایک مضبوط قدم ہوتی ہیں۔

پختونخوا ریڈیو نہ صرف اپنی بھرپور نشریات کے ذریعے عوام تک معلومات پہنچا رہا ہے بلکہ ترقیاتی منصوبوں، سرکاری پالیسیوں اور امن و امان سے متعلق حقائق بھی سامنے لا رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ یہ کسی ایک طبقے یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ مختلف زبانوں پشتو، اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے ذریعے ہر اُس شخص تک پہنچ رہا ہے جو اس سرزمین کا حصہ ہے۔

آج جب لوگ موبائل اسکرینوں میں گم ہیں اور سوشل میڈیا پر گمراہ کن معلومات کا دور دورہ ہے ریڈیو اب بھی ایک صاف، سادہ، غیر جانبدار اور قابلِ اعتماد ذریعہ ہے۔ اس کی آواز نہ صرف گھروں میں گونجتی ہے بلکہ پہاڑی وادیوں، کھیتوں، سفر کے راستوں، دکانوں، چائے خانوں اور دفاتر میں بھی سنائی دیتی ہے۔ یہی قبولیت اور اعتماد ریڈیو پختونخوا کوہاٹ کو آج کے جدید دور میں بھی باوقار بنا رہی ہے۔

ٹیکنالوجی نے جن روابط کو تیز تر کیا ہے ریڈیو نے انہیں مضبوط اور معتبر بنایا ہے۔ یہ پلیٹ فارم اب بھی وہ کام کر رہا ہے جو ڈیجیٹل میڈیا کے بہت سے ادارے نہیں کر پاتے سچائی، توازن، ثقافت، عوامی خدمت اور ریاستی بیانیے کو ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھانا۔

آخر میں یہی کہنا موزوں ہے کہ ریڈیو کی آواز کبھی مدھم نہیں ہوتی یہ وقت کے ساتھ مزید پختہ ہوتی جاتی ہے۔ پختونخوا ریڈیو FM 92.4 کوہاٹ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر ادارہ اپنی نیت، پیشہ ورانہ مہارت اور عوامی ذمہ داری سے اخلاص رکھے تو جدید ٹیکنالوجی بھی اس کے وقار کو کم نہیں کر سکتی۔ بلکہ ایسے ادارے آج کے دور میں پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہو گئے ہیں کیونکہ قومیں صرف بڑی اسکرینوں سے نہیں بلکہ سچی آوازوں سے بنتی ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی کو بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ دینا آئین، قانون اور عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے، شفیع جان

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقات عامہ شفیع جان نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی کو ایک بار پھر اڈیالہ جیل میں بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات سے روکنا آئین، قانون اور عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پنجاب حکومت کے اس غیر جمہوری رویے کے خلاف وزیر اعلی محمد سہیل آفریدی نے اراکین اسمبلی اور کارکنوں کے ہمراہ اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دیا، وزیر اعلیٰ کے دھرنے کو پنجاب حکومت ہماری کمزوری نہ سمجھے۔ اپنے دفتر سے جاری ایک بیان میں معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ایک منتخب وزیراعلیٰ کے ساتھ پنجاب حکومت اور جیل انتظامیہ کا رویہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ وزیراعلیٰ کے منصب اور صوبائی عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے، پنجاب حکومت کے اوچھے ہتھکنڈے تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کے عمران خان کیساتھ کھڑے ہونے کے عزم کو کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے ساتھ روا رکھا جانے والا طرز عمل جمہوری اقدار کے سراسر منافی ہے۔معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خوف میں مبتلا مسلم لیگ ن بوکھلاہٹ کا شکار ہے جو ہمیشہ سے دھاندلی کے ذریعے اقتدار حاصل کرتی آئی ہے،مزید برآں، شفیع جان نے وزیراعلیٰ محمد سہیل آفریدی کے خلاف جاری منفی پراپیگنڈے کی بھی مذمت کی اور واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف یہ منظم پراپیگنڈہ کسی صورت قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان وزیر اعلیٰ کو صوبے کو درپیش چیلنجز کا بخوبی ادراک ہے جس کے لئے وہ عملی اقدامات اٹھارہے ہیں،قیام امن کے لئے صوبائی حکومت نے امن جرگے کا انعقاد کیا امن جرگہ میں متفقہ طور پر منظور کردہ 15 نکات پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، شفیع جان نے مزید کہا کہ صوبے میں بہتر طرز حکمرانی کے فروغ کے لئے موثر اقدامات کئے جارہے ہیں اور اس ضمن میں وزیر اعلیٰ اقدامات کی خود مانیٹرنگ بھی کررہے ہیں۔

سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی اورصوبائی وزیر صحت خلیق الرحمن کی صدارت میں کنگ عبداللہ ٹیچنگ ہسپتال مانسہرہ اور دیگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں سے متعلق ایک اہم اجلاس پشاور میں منعقد ہوا

سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی اورصوبائی وزیر صحت خلیق الرحمن کی صدارت میں کنگ عبداللہ ٹیچنگ ہسپتال مانسہرہ اور دیگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں سے متعلق ایک اہم اجلاس پشاور میں منعقد ہوا جس میں سیکرٹری صحت شاہد اللہ خان، ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز شاہد یونس، ریجنل ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز ہزارہ ڈویژن، چیف ایگزیکٹو آفیسر صحت کارڈ پلس کے پی، ڈائریکٹر آئی ایم یو کے پی، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر مانسہرہ، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کنگ عبداللہ ٹیچنگ ہسپتال سمیت دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔اس موقع پر گزشتہ اجلاس کی سفارشات پر عملدرآمد کے حوالے سے تفصیلی جائزہ لینے کے ساتھ شرکائ کو اب تک ہونے والی کارروائی اور پیش رفت سے آگاہ کیا گیا اور اہم مسائل کے ازالے پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ محکمہ صحت نے ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات کیے ہیں، نیز تمام خالی آسامیوں کو پُر کرنے کا عمل جاری ہے اور بہت جلد افرادی قوت کی کمی دور کر دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کنگ عبداللہ ٹیچنگ ہسپتال ایک بڑا طبی مرکز ہے اور محکمہ صحت اس ہسپتال میں تمام ضروری سہولیات اور وسائل کی فراہمی کے لیے پرعزم ہے۔وزیر صحت نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو ایمانداری سے فرائض انجام دینے اور ہسپتال کے نظام کی سخت نگرانی کی واضح ہدایات جاری کیں اور کہا کہ محکمہ صحت ادویات اور درکار فنڈز کی وافر فراہمی کر رہا ہے اس لئے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مریض بازار سے ادویات خریدنے پر مجبور نہ ہوں بلکہ تمام تجویز کردہ ادویات ہسپتال میں ہی دستیاب ہوں۔محکمہ صحت ہسپتال کو ریڈیالوجی سروسز کو چوبیس گھنٹے فعال رکھنے کے لیے مطلوبہ عملہ اور ڈاکٹرز فراہم کرے گا۔ صحت کارڈ پلس پروگرام کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ پروگرام مکمل طور پر فعال ہے اور مریض اس سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ وزیر صحت نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کی کہ ایم آر آئی مشین کو فوری طور پر فعال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت نے ایم آر آئی مشین فراہم کر دی ہے اور عوامی مفاد میں اسے جلد از جلد قابل استعمال بنایا جائے۔وزیر صحت نے مزید بتایا کہ محکمہ صحت ڈاکٹروں کی بڑی تعداد کو کنٹریکٹ بنیادوں پر بھرتی کر رہا ہے تاکہ طبی عملے کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہر ضلع میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ محکمہ صحت کا فوکل پرسن ہوتا ہے اور وہ اپنے متعلقہ ہسپتال میں عملے کی کمی، مسائل اور دیگر امور سے بروقت آگاہ کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت صوبے کے ہر کونے تک صحت کی سہولیات پہنچانے اور مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہا ہے۔بعد ازاں صوبائی وزیر صحت نے ڈپٹی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے ساتھ ایک مختصر ملاقات بھی کی جس میں بالائی اور زیریں چترال کے ہسپتالوں سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں بتایا گیا کہ بونی میں نرسنگ کالج کے قیام کے لیے فنڈز اور جگہ سے متعلق تمام مسائل حل کر لیے گئے ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ بالائی و زیریں چترال میں ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی قلت کے مسائل بھی جلد حل کر لیے جائیں گے۔ وزیر صحت نے ڈپٹی سپیکر کو ان کے حلقے کے ہسپتالوں کی بہتری کے لیے ہر ممکن تعاون اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

وزیراعلی سہیل آفریدی کو عمران خان سے ملاقات سے روکنا/ معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان کا سخت ردعمل

عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ دینے پر وزیر اعلی سہیل آفریدی نے اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دیدیا، شفیع جان

وزیراعلی کے ہمراہ اراکین اسمبلی اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی موجود ہے، شفیع جان

وزیراعلی سہیل آفریدی کا اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا پنجاب حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے، شفیع جان

وزیراعلی کو عمران خان سے ملاقات سے روکنا آئین و قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، شفیع جان

بانی چئیر مین عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر ہمارے خدشات بڑھ رہے ہیں، شفیع جان

عمران خان کو قید تنہائی میں ڈالنا ہمیں کسی صورت قبول نہیں، شفیع جان

پنجاب حکومت کا رویہ وزیراعلیٰ کے منصب کی توہین ہے، شفیع جان

اڈیالہ جیل انتظامیہ اور پنجاب حکومت کا غیر قانونی طرز عمل قابل مذمت ہے، شفیع جان

پنجاب حکومت کے اوچھے ہتھکنڈے ہمارے عزم کو مزید مضبوط کر رہے ہیں، شفیع جان

وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سے روا سلوک جمہوری اقدار کے منافی ہے، معاون خصوصی

عمران خان کے خوف میں مسلم لیگ ن بوکھلاہٹ کا شکار ہے، شفیع جان

مسلم لیگ ن ہمیشہ دھاندلی کے ذریعے اقتدار حاصل کرتی آئی ہے، شفیع جان

صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم ایڈوکیٹ کی زیرصدارت خیبرپختونخوا اسمبلی کی متفقہ قرار داد نمبر 212 کے تناظر میں ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشنز 2011 کے مجوزہ خاتمے سے متعلق کمیٹی کا دوسرا اجلاس پشاور میں منعقد

صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم ایڈوکیٹ کی زیرصدارت خیبرپختونخوا اسمبلی کی متفقہ قرار داد نمبر 212 کے تناظر میں ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشنز 2011 کے مجوزہ خاتمے سے متعلق کمیٹی کا دوسرا اجلاس پشاور میں منعقد ہوا جس میں وزیر ہاؤسنگ ڈاکٹر امجد علی، ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل، آئی جی جیل خانہ جات عثمان محسود اور سیکرٹری قانون سمیت متعلقہ محکموں کے سینئر افسران نے شرکت کی۔ اس موقع پرگزشتہ اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش کی گئی اور قانون کے خاتمے کی صورت میں پیدا ہونے والے ممکنہ قانونی خلا کو پر کرنے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ وزیر قانون آفتاب عالم نے شرکاء کو ہدایت کی کہ تمام معاملات کو عدالتی احکامات، قومی سلامتی اور شہری حقوق کے توازن کے ساتھ حل کیا جائے۔ اجلاس میں سیاسی و ذاتی انتقام کے تمام امکانات ختم کرنے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے مکمل تحفظ کے حکومتی عزم کا بھی برملا اعادہ کیا گیا۔ایک دوسرے اجلاس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997، مغربی پاکستان، پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 اور سی آر پی سی 1898 کی دفعہ 144 میں مجوزہ اصلاحات پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ اجلاس کا مقصد ان قوانین کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور عوامی مفادات کے ساتھ شہری حقوق کے درمیان توازن قائم کرنا ہے، تاکہ انہیں سیاسی انتقام یا دباؤ کے غلط استعمال سے روکا جا سکے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم ایڈوکیٹ نے کہا کہ صوبائی حکومت عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے قوانین کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے۔ اُنہوں نے زور دیا کہ قوانین کا بنیادی مقصد امن و امان برقرار رکھنا ہے، مگر اسے شہری آزادیوں کی خلاف ورزی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ قوانین کو مزید شفاف اور منصفانہ بنانا ہے، تاکہ سیاسی استحصال کے امکانات ختم ہوں اور عدل و انصاف کا غلبہ ہو۔

پبلک اکاؤنٹ کمیٹی برائے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کا اجلاس، آڈٹ رپورٹس کا تفصیلی جائزہ-

خیبر پختونخوا اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی برائے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کا اجلاس جمعرات کے روز صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ پشاور کے رحمان بابا کانفرنس روم میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین اور رکن صوبائی اسمبلی ادریس خٹک نے کی، جبکہ اراکین اسمبلی مشتاق احمد غنی، انور خان، عبدالسلام آفریدی، اکرام غازی، ڈی آئی جی فرنٹیئر پولیس بمعہ متعلقہ عملہ، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ، فنانس ڈیپارٹمنٹ، لا ڈیپارٹمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے افسران نے شرکت کی۔اجلاس میں مالی سال 2018-19 کے دوران محکمہ داخلہ و قبائلی امور سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے ہر اعتراض پر الگ الگ غور کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے وضاحتیں طلب کیں۔ حکام نے کمیٹی کے روبرو شواہد، ریکوریز اور آڈٹ نکات پر کی گئی کارروائیوں کی رپورٹس پیش کیں، جس پر کمیٹی نے معمولی نوعیت کے اعتراضات کو نمٹا دیا، چند اعتراضات پر فیصلے جاری کیے جبکہ بعض کو مزید جائزے کے لیے زیر التوا رکھا۔کمیٹی نے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کو ہدایت کی کہ آمد و خرچ کے پورے نظام کو فوری طور پر کمپیوٹرائزڈ کیا جائے تاکہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام میں مزید شفافیت لائی جا سکے۔ اجلاس کے دوران افسران کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ ورکنگ پیپرز کے ساتھ ڈی ایس سی اجلاس کی روداد لازمی منسلک کی جائیں۔ صوبائی اسمبلی کے سیکرٹری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مالی نظم و ضبط کی بہتری اور شفافیت کو فروغ دینے میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، جن کے ذریعے محکموں کی مالی کارکردگی میں بہتری کے اہم اقدامات کیے جاتے ہیں

خیبرپختونخوا فوڈ اتھارٹی کا بڑا ایکشن، مصنوعی دودھ بنانے والا قومی سطح کا نیٹ ورک بے نقاب

خیبرپختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی نے مصنوعی، جعلی اور مضر صحت دودھ تیار کرنے والے ملک گیر نیٹ ورک کو بڑی کارروائی کے دوران بے نقاب کر دیا۔ ڈائریکٹر جنرل فوڈ اتھارٹی واصف سعید کی براہِ راست نگرانی میں ڈائریکٹر آپریشنز یوسف اور ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈاکٹر عبد الستار شاہ نے خصوصی فوڈ سیفٹی ٹیم کے ہمراہ رات گئے ضلع ہری پور کے حطار انڈسٹریل زون میں کارروائی کرتے ہوئے پنجاب کے ضلع بہاول نگر سے تعلق رکھنے والے مصنوعی دودھ میں ملوث گروہ کو فیکٹری کے اندر رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ڈی جی واصف سعید نے کاروائی کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارروائیوں کے بعد یہ بدنام زمانہ گروہ خیبرپختونخوا منتقل ہوگیا تھا، جسے کے پی فوڈ اتھارٹی نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے پکڑا۔ ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ انٹیلیجنس بیسڈ معلومات کی بنیاد پر پہلے پنجاب میں پنجاب فوڈ اتھارٹی اور اب خیبرپختونخوا میں خیبرپختونخوا فوڈ اتھارٹی نے اس مکروہ دھندے کو پکڑا۔ آپریشن کے تفصیلات بتاتے ہوئے واصف سعید نے کہا کہ چھاپے کے دوران فیکٹری سے مصنوعی دودھ کی تیاری میں استعمال ہونے والے بڑے پیمانے پر کیمیکلز، خام مال اور بھاری مشینری برآمد کی گئی۔ موقع سے مضر صحت دودھ سے بھرے ٹینکرز بھی پکڑے گئے۔جسے تلف کر دیا گیا۔ڈائریکٹر جنرل نے مزید بتایا کہ فیکٹری غیر قانونی طور پر چلائی جا رہی تھی اور مصنوعی اور مضر صحت دودھ اسلام آباد، راولپنڈی سمیت مختلف بڑے شہروں کو سپلائی کیا جا رہا تھا۔ڈی جی واصف سعید نے بتایا کہ نیٹ ورک مبینہ طور پر روزانہ تقریباً ایک لاکھ لیٹر مصنوعی دودھ مارکیٹ میں سپلائی کر رہا تھا، جو انسانی صحت کے لیے شدید خطرناک ہے۔ کارروائی کے دوران فیکٹری سیل کرکے منیجر سمیت تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا، جبکہ تمام مشینری سرکاری تحویل میں لے لی گئی ہے۔ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ اس معاملے میں غفلت برتنے پر ہری پور فوڈ اتھارٹی کی ضلعی ٹیم کو معطل کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انسان دشمن عناصر کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا اور غذائی دھشتگردوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ڈی جی واصف سعید نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سہیل خان آفریدی کے وژن اور چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ کی ہدایات پر ایسے غذائی دہشت گردوں کا خاتمہ ہر صورت یقینی بنائیں گے اور صوبہ بھر میں ایسے عناصر کیخلاف کریک ڈاؤن جاری رہے گا۔ڈائریکٹر جنرل نے ضلعی انتظامیہ ا ور پولیس کے بھرپور تعاون پر ان کا بھی شکریہ ادا کیا۔

خیبر پختونخوا میں بچوں کو آنتوں (پیٹ) کے کیڑوں سے محفوظ بنانے سے متعلق سپیشل سیکرٹری صحت، خالد پرویز کی زیر صدارت ملٹی سیکٹورل سٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا

خیبر پختونخوا میں بچوں کو آنتوں (پیٹ) کے کیڑوں سے محفوظ بنانے سے متعلق سپیشل سیکرٹری صحت، خالد پرویز کی زیر صدارت ملٹی سیکٹورل سٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں محکمہ صحت سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی، جبکہ ڈی وارمنگ پروگرام کے حوالے سے ایک تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔بریفنگ میں اجلاس کو بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا میں بچوں کو آنتوں کے کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے جاری ڈی وارمنگ پروگرام کے تحت سال 2019 سے اب تک تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ بچوں کو مفت، محفوظ اور مؤثر ادویات فراہم کی جا چکی ہیں۔ اسی سلسلے کی آئندہ مہم 8 دسمبر سے 12 دسمبر تک جاری رہے گی، جس کے دوران صوبہ بھر میں مزید تقریباً 80 لاکھ بچوں کو پیٹ کے کیڑوں کے خاتمے کے لیے دوا پلائی جائے گی۔ مزید بتایا گیا کہ اس مہم کے تحت صوبہ خیبر پختونخوا کے 22 اضلاع میں 5 سے 14 سال کی عمر کے 80 لاکھ سے زائد بچوں کو آنتوں کے کیڑوں سے بچانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس ہدف میں تمام سرکاری و نجی سکولوں، پرائمری و مڈل تعلیمی اداروں اور مدارس کے بچے شامل ہوں گے، تاکہ کوئی بھی بچہ اس حفاظتی مہم سے محروم نہ رہ جائے۔مہم کی کامیابی کے لیے ہر سال 35 ہزار سے زائد اساتذہ، محکمہ صحت کا طبی عملہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور دیگر معاون عملہ کے لوگ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اساتذہ کو خصوصی تربیت دے کر تعلیمی اداروں میں بچوں کو دوا پلانے اور آگاہی فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، جبکہ محکمہ صحت کا عملہ تکنیکی نگرانی، ادویات کی فراہمی اور مانیٹرنگ کو یقینی بناتا ہے۔حکام نے بتایا کہ آنتوں کے کیڑے بچوں کی صحت، جسمانی نشوونما، غذائیت اور تعلیمی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، جس کے تدارک کے لیے یہ مہم نہایت مؤثر ثابت ہو رہی ہے۔ ڈی وارمنگ پروگرام کے نتیجے میں بچوں میں خون کی کمی (اینیمیا)، کمزوری اور دیگر بیماریوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔محکمہ صحت کے مطابق مہم کے دوران تمام حفاظتی اصولوں پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور بچوں کو عالمی معیار کے مطابق محفوظ اور مؤثر ادویات فراہم کی جائیں گی۔ اجلاس میں والدین، اساتذہ، علماء کرام اور تمام طبقات سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس قومی فلاحی مہم میں بھرپور تعاون کریں تاکہ صوبے کے بچے صحت مند اور محفوظ مستقبل کی طرف گامزن ہو سکیں۔