Home Blog Page 31

ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد سرمَد سلیم اکرم کی زیرِ صدارت ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ڈپٹی کمشنر آفس کے کانفرنس روم میں منعقد ہوا

ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد سرمَد سلیم اکرم کی زیرِ صدارت ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ڈپٹی کمشنر آفس کے کانفرنس روم میں منعقد ہوا، جس میں سول و عسکری اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، آرمی، انٹیلیجنس، پولیس، نادرا اور متعلقہ محکموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں سکیورٹی کی موجودہ صورتحال، حکومتی ہدایات پر عمل درآمد اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت غیر قانونی سرگرمیوں کے تدارک کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر نے ضلع بھر میں منشیات اسمگلنگ اور منشیات رسانی کے مکمل خاتمے، غیر رجسٹرڈ اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف فوری کریک ڈاؤن، غیر لائسنس یافتہ کرشنگ پلانٹس اور غیر قانونی مائننگ کے خلاف سخت کارروائی، جبکہ پٹرول پمپس اور ہاؤسنگ اسکیموں کے خلاف مؤثر اقدامات کی ہدایات جاری کیں۔ اجلاس میں لاؤڈ اسپیکرز کے غلط استعمال کی روک تھام، شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کی مؤثر نگرانی، نفرت انگیز تقاریر کے خلاف سخت کارروائی، مدارس کی رجسٹریشن، غیر قانونی اسلحے کے خاتمے، غیر قانونی افغان شہریوں کی واپسی کے پلان اور موٹرسائیکلوں کے کمرشل استعمال و ناجائز سرگرمیوں کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں غیر قانونی سمز کے استعمال اور ان کی فروخت کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ بھی کیا گیا، تاکہ جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں کی مؤثر نگرانی ممکن ہو سکے۔ ڈپٹی کمشنر سُرمَد سلیم اکرم نے کہا کہ شہریوں کو پرامن اور محفوظ ماحول فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور تمام محکمے آئندہ اجلاس میں اپنی پیش رفت رپورٹس پیش کریں گے۔

ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد سرمد سلیم اکرم کا ضلع ایبٹ آباد میں خسرہ و روبیلا مہم کا افتتاح

ایبٹ آباد میں خسرہ اور روبیلا سے بچاؤ کی قومی مہم 17 نومبر سے 29 نومبر تک جاری رہے گی، جس کا باقاعدہ افتتاح ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد سُرمَد سلیم اکرم نے اپنی موجودگی میں بچوں کو ویکسین اور پولیو کے قطرے پلا کر کیا۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال کے مطابق محکمہ صحت ایبٹ آباد کی نگرانی میں مہم کے دوران ضلع کی 53 یونین کونسلز میں 6 ماہ سے 5 سال تک کے 1 لاکھ 77 ہزار 262 بچوں کو خسرہ اور روبیلا کے حفاظتی انجکشن جبکہ 1 لاکھ 78 ہزار 47 بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مہم بچوں کے روشن، صحت مند اور محفوظ مستقبل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔محکمہ صحت کی جانب سے 202 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جن میں 153 آؤٹ ریچ، 45 فکسڈ اور 4 موبائل ٹیمیں شامل ہیں، جو ضلع کے ہر گاؤں، محلے اور پہاڑی علاقوں تک رسائی یقینی بنائیں گی۔ یہ ٹیمیں روزانہ اپنی کارکردگی کی رپورٹ ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کو پیش کریں گی تاکہ مہم کی نگرانی مؤثر اور شفاف رہے۔ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد سُرمَد سلیم اکرم نے افتتاح کے موقع پر کہا کہ خسرہ اور روبیلا سے بچاؤ کی یہ مہم بچوں کی صحت اور مستقبل کے تحفظ کے لیے نہایت اہم ہے۔ انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی قسم کی افواہوں یا ہچکچاہٹ سے دور رہیں اور اپنے بچوں کو لازمی ویکسین لگوائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت ہر بچے تک ویکسین کی رسائی یقینی بنانے کے لیے مکمل طور پر سرگرم عمل ہیں اور دور دراز و پہاڑی علاقوں میں بھی بھرپور کوریج فراہم کی جائے گی تاکہ کوئی بچہ ویکسین سے محروم نہ رہے۔آخر میں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت ایبٹ آباد نے عوام سے اپیل کی کہ وہ خسرہ، روبیلا اور پولیو سے بچاؤ کی اس قومی مہم میں بھرپور حصہ لیں تاکہ ایبٹ آباد کو بیماریوں سے پاک، صحت مند اور محفوظ ضلع بنایا جا سکے

The long road to recovery

Written by: Muhammad Daud Khan, Incharge Pakhtunkhwa Radio Kurrum, DGIPR.

In the heart of Buner district, nestled in the scenic hills of Malakand division, life revolves around the bustling lanes of Pir Baba Bazaar, a centuries-old marketplace where traders from Muslim, Hindu and Sikh communities have lived and worked together for generations.

For 36 years, Ganga Vishan, a Sikh trader, has run his medical store in the main Pir Baba Bazaar. His shop, stocked with medicines sold both retail and wholesale, was not just a source of income but also community lifeline for nearby villages.

On the morning of August 15, as rain intensified, Ganga was at his store when a wall of floodwater rushed through the narrow street. “Within minutes, water was inside the shop,” he recalls. “We barely managed to flee, but everything inside—all the medicines and the shelves—was swept away.”

A few weeks before the floods, he had repaired and restocked his store, investing millions of rupees in new medicines. “I lost over ten million rupees,” he says. “It took me years to build this business. The flood took it all away within an hour.”

Ganga refused to give up.

A month later, he reopened his pharmacy, rebuilding slowly with whatever help came his way. “The district administration surveyed my shop. They later gave me a cheque . Other organizations also supported us in small ways, enough to give us hope.”

Buner, one of the most picturesque districts of Khyber Pakhtunkhwa’s Malakand division, was among the worst-hit areas during this year’s monsoon floods. For centuries, its Hindu and Sikh communities have been an integral part of its social fabric, mostly engaged in trade, cosmetics, and cloth businesses. Here, religious harmony runs deep: locals often say that Muslims trust Sikh traders enough to deposit their savings with them.

Ajay Singh, another trader from Pir Baba, has a small wholesale business dealing in candies and toffees. His warehouse, located near the main stream, was inundated when floodwaters surged through the bazaar. “The water destroyed everything inside,” he says. “My entire stock was washed away by the floods; the warehouse slated.”

In Buner’s worst-hit areas, residents are still unable to start rebuilding their homes. Across the district, hundreds of families continue to struggle to recover from the devastation. Three charitable organizations have initiated small-scale housing projects for the displaced. These include the Alkhidmat Foundation, which is constructing 18 new houses with two more approved. However, large-scale reconstruction by private homeowners has yet to begin.

The provincial government paid Rs 2 million each to the families of those killed in the floods. But according to local officials, some cases remain unresolved because entire families perished, leaving no immediate heirs.

The Khyber Pakhtunkhwa Assembly has debated the post-flood situation. Lawmakers, from all political parties, from across the province, voiced concern that more than three months after the disaster, rehabilitation work remains incomplete and many victims have yet to receive compensation for the slated shops. Some members demanded that compensation amounts be increased. Others called for a fresh survey to ensure fairness and transparency.

Among those who raised their voice in the assembly was Gurpal Singh, a JUI-F minority MPA from Peshawar. He said like Muslims, the Hindu and Sikh communities in Buner and Swat had suffered enormous losses during the floods.

“Many have received government assistance, and we are thankful for that,” he said. “But several minority families are still waiting for compensation.”

In Buner and Mingora, dozens of homes and businesses belonging to minority traders were damaged. The provincial government provided Rs 300,000 for each damaged house and Rs 500,000 for each shop.

Buner’s plight reflects a much larger crisis across Khyber Pakhtunkhwa.

According to official figures presented in the provincial assembly, in recent floods at least 511 people died and 223 were injured, mostly in the northern districts of the province. More than 574 houses were destroyed and 2,500 were partially damaged, while around 5,000 livestock animals were lost.

In one tragic case, a family preparing for a wedding lost 24 members when a flash flood swept through their house.

The recent monsoon rains and floods were unlike those of previous years, striking hard at the mountainous regions of the province. This time, the devastation was deeper and deadlier, with a higher number of fatalities reported across several districts.

In response, the government doubled the compensation for victims. The floods swept through houses and shops, leaving layers of mud and slate in their wake. Even those whose properties were inundated but not destroyed have been classified as affected and are expected to receive Rs 100,000 to help with cleanup efforts.

 

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کو بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقات سے روکنا غیر جمہوری طرز عمل ہے، معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو ایک مرتبہ پھر بانی و چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان سے ملاقات سے روکنا انتہائی افسوسناک، مذمت اور جمہوری طرز عمل کے منافی اقدام ہے۔یہاں سے جاری ایک بیان میں شفیع جان نے کہا کہ وزیراعلیٰ کا اپنے پارٹی قائد سے ملاقات کرنا اُن کا آئینی و قانونی حق ہے، جس سے کسی کو بھی روکنے کا کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے جمہوری روایات کے منافی ہیں، معاون خصوصی شفیع جان نے واضح کیا کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے عمران خان سے ملاقات کے لیے تمام قانونی و جمہوری راستے اختیار کیے، عدالت سے رجوع کیا مگر پھر بھی انہیں ملاقات سے بلاجواز روکا گیا، انہوں نے کہا کہ عوام اور صوبائی حکومت اپنے قائد کے ساتھ کھڑی ہے، اور اس طرح کی رکاوٹیں وزیراعلیٰ اور ہمارے عزم و حوصلے کو کمزور نہیں کر سکتیں

چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کی اوپن ڈور پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت

چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا شہاب علی شاہ کی تمام اضلاع میں اوپن ڈور پالیسی نافذ کرنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ صوبائی حکومت کی ہدایات کی روشنی میں صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز عوام کے لیے اوپن ڈور پالیسی پر مکمل عملدرآمد یقینی بنائیں۔چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا نے کہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد عوام اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان براہِ راست رابطے کو فروغ دینا اور عوام کو اپنی شکایات اور مسائل کے حل کے لیے بغیر کسی رکاوٹ یا تاخیر کے آسان رسائی فراہم کرنا ہے۔چیف سیکرٹری نے کہا کہ گڈ گورننس کی شروعات عوام کے بنیادی مسائل کے بروقت حل سے ہوتی ہے۔ صوبائی انتظامیہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ شفاف، قابلِ رسائی اور عوام دوست طرزِ حکمرانی ہی مؤثر سروس ڈیلیوری کی بنیاد ہے۔انہوں نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی کہ وہ روزانہ مخصوص اوقات عوام سے ملاقات کے لیے مختص کریں، تاکہ شہری اپنے مسائل براہِ راست انتظامیہ کے سامنے رکھ سکیں اور ان کے حل کو یقینی بنایا جا سکے۔چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ صوبائی حکومت عوامی خدمت، شفافیت اور بہتر طرزِ حکمرانی کے فروغ کے لیے ہر ممکن اقدامات جاری رکھے گی۔

چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا شہاب علی شاہ کی زیر صدارت محکمہ سیاحت گڈ گورننس اقدامات پر جائزہ اجلاس

چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا شہاب علی شاہ کی زیر صدارت محکمہ سیاحت کے گڈ گورننس اقدامات پر جائزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں سیکرٹری سیاحت اور متعلقہ حکام شریک ہوئے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہصوبائی حکومت گڈ گورننس روڈمیپ کے اہداف کے تحت پائیدار سیاحت کو فروغ دینے اور سیاحوں کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے اقدامات جاری ہیں۔ محکمہ سیاحت کے 16 گڈ گورننس اقدامات پر تیزی سے عملدرآمد جاری ہے۔مقامی معیشت کے فروغ اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے مقامی کمیونٹی کی شمولیت سے گلیات، کاغان، ناران اور کمراٹ کی ماسٹر پلاننگ پر کام جاری ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ کے عمل کو جدید اور ماحول دوست بنانے کے لئے 2.5 ارب روپے کی لاگت سے تمام سیاحتی مقامات کی صفائی ستھرائی کیلئے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم صوبائی کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ ثقافتی ورثے کے حامل سات مقامات پر آڈیو گائیڈ کی سہولت متعارف کرائی جا رہی ہے جبکہ معاشی ترقی کیلئے سیاحتی منصوبوں میں عوامی شراکت داری کیلئے لائحہ عمل بھی تشکیل دیا جارہا ہے۔

صوبائی وزیر سید فخرجہان کی زیرصدارت محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول کی محکمانہ کارکردگی اور اہداف کے حوالے سے جائزہ اجلاس

خیبرپختونخوا کے وزیر ایکسائز، ٹیکسیشن و نارکوٹکس کنٹرول سید فخر جہان کی زیرصدارت جمعرات کے روز سول سیکریٹریٹ پشاور میں محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول کے حوالے سے جائزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں کابینہ کے فیصلوں اور دیگر اہم محکمانہ ٹاسکس پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں سیکرٹری ایکسائز و ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول خالد الیاس،ڈائریکٹر جنرل ایکسائز عبدلحلیم خان کے علاؤہ ایڈیشنل ڈی جی، ڈائریکٹرز و دیگر متعلقہ افسران اور بذریعہ زوم ریجنل ڈائریکٹرز نے شرکت کی۔اجلاس میں گاڑیوں کی رجسٹریشن اور نمبر پلیٹس کے امور سمیت ٹیکس محصولات کے معاملات، محکمہ کے متعدد قوانین پر غوروخوض کے علاؤہ منشیات کے روک تھام کے حوالے سے حکومتی زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت جاری اقدامات کا سیر حاصل جائزہ لیا گیا۔صوبائی وزیر نے اجلاس میں متعلقہ شعبہ جات کو متعین ٹاسکس اور ذمہ داریوں پر عملدرآمد کی رفتار مزید تیز کرنے کی ہدایت کی تاکہ عوامی مفاد کیلئے محکمہ کی جانب سے گورننس کا نظام پائدار بنیادوں پر تیز کیا جائے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ محکمہ ایکسائز صوبے میں محصولات کے استحکام، انسدادِ منشیات اور شفاف نظامِ کار کے قیام کے لیے بھرپور اقدامات جاری رکھے گا۔انھوں نے کہا کہ منشیات کی روک تھام صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت یا کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی تاکہ نئی نسل کو اس ناسور سے بچایا جا سکے۔

پشاور کے سالڈ ویسٹ سے توانائی پیدا کرنے کے منصوبے پر پیش رفت، وزیر بلدیات مینا خان آفریدی کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس

خیبرپختونخوا کے وزیر برائے بلدیات مینا خان آفریدی کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں پشاور کے سالڈ ویسٹ سے توانائی پیدا کرنے کے منصوبے پر پیش رفت اور عملدرآمد کے امور پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔اجلاس میں چراٹ سیمنٹ کمپنی کی جانب سے ایڈیشنل جنرل منیجر ظفر علی خان سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی، جبکہ سیکرٹری بلدیات اسلم ثاقب رضا اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر واٹر اینڈ سینیٹیشن سروسز کمپنی پشاور (WSSP) یاسر بھی اجلاس میں موجود تھے۔وزیر بلدیات مینا خان آفریدی نے اجلاس کے دوران ہدایت کی کہ چراٹ سیمنٹ کمپنی کے ساتھ سالڈ ویسٹ انرجی پروپوزل کو نومبر کے آخر تک فائنل کرکے عملی کام شروع کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ڈبلیو ایس ایس پی کے ذریعے جمع شدہ کوڑا کرکٹ کو کمپنی کو فروخت کیا جائے گا، جبکہ اگلے مرحلے میں صوبے کے دیگر اضلاع کے سالڈ ویسٹ کو بھی شامل کیا جائے گا۔مینا خان آفریدی نے کہا کہ سالڈ ویسٹ سے توانائی کی پیداوار نہ صرف آمدنی میں اضافے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک ماحول دوست اور پائیدار اپروچ بھی ہے، جس سے فضلے کے مؤثر انتظام کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی۔انہوں نے اس موقع پر متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ منصوبے کے تکنیکی، قانونی اور ماحولیاتی پہلوؤں کو جلد از جلد حتمی شکل دے کر اس پر عملدرآمد کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔وزیر بلدیات نے کہا کہ صوبائی حکومت صاف اور سرسبز خیبرپختونخوا کے وژن کے تحت ماحول دوست منصوبوں کی مکمل سرپرستی کر رہی ہے تاکہ شہریوں کو صاف اور صحت مند ماحول فراہم کیا جا سکے۔

وزیر بلدیات خیبرپختونخوا مینا خان آفریدی کی زیر صدارت محکمہ بلدیات کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا جائزہ اجلاس

خیبرپختونخوا کے وزیر برائے بلدیات مینا خان آفریدی کی زیر صدارت محکمہ بلدیات کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (ADP) کا ایک اہم جائزہ اجلاس منعقد ہوا، جس میں ترقیاتی سکیموں پر عملدرآمد کی رفتار اور مجموعی پیشرفت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں سیکرٹری بلدیات اسلم ثاقب رضا سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور وزیر بلدیات کو مختلف منصوبوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔بریفنگ کے مطابق محکمہ بلدیات کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں بندوبستی اضلاع کے لیے 53 سکیمیں، ضم اضلاع کے لیے 4 سکیمیں، جبکہ انٹیگریٹڈ ایکسیلیریٹڈ پروگرام کے تحت 12 سکیمیں شامل ہیں۔مزید بتایا گیا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مجموعی طور پر 2 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں، جنہیں صوبے بھر میں بلدیاتی نظام اور عوامی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔وزیر بلدیات مینا خان آفریدی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترقیاتی سکیموں کے عملدرآمد میں شفافیت اور معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کرپشن اور سفارش کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی اختیار کی گئی ہے، اور کسی بھی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔
مینا خان آفریدی نے ہدایت کی کہ تمام جاری سکیموں کی تکمیل کے عمل کو تیز کیا جائے تاکہ عوامی فلاح کے منصوبوں کے ثمرات جلد عوام تک پہنچ سکیں۔انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ بلدیات صوبے میں خدمات کی فراہمی، شہری ترقی اور مقامی حکومتوں کی استعداد کار بڑھانے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہا ہے، اور حکومت عوامی مفاد کے ہر منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے 2025-26ء ویمن امپاورمنٹ پالیسی پر کام کا آغاز کر دیا — ڈاکٹر سمیرا شمس کی زیرِ صدارت مشاورتی اجلاس

خیبر پختونخوا کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (KPCSW) کی چیئرپرسن ڈاکٹر سمیرا شمس کی زیرِصدارت خیبر پختونخوا ویمن امپاورمنٹ پالیسی 2017 کے نفاذ اور آئندہ ویمن امپاورمنٹ پالیسی 2025-26 کی تیاری کے حوالے سے مشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔
اجلاس میں محکمہ قانون و انسانی حقوق، محکمہ آبادی و بہبود، محکمہ صنعت و مزدور، محکمہ منصوبہ بندی و ترقی، محکمہ سماجی بہبود، محکمہ جنگلات و موسمیاتی تبدیلی، پی ڈی ایم اے، خیبر پختونخوا آئی ٹی بورڈ، نادرا، الیکشن کمیشن آف پاکستان، یو این ڈی پی، یو این ویمن، اسمیڈا، میڈیا نمائندگان، سابق ایم پی اے عائشہ بانو، رخشاندا ناز اور خیبر پختونخوا کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کے عملے کے نمائندگان نے شرکت کی۔
اس اجلاس کا مقصد خیبر پختونخوا ویمن امپاورمنٹ پالیسی 2017 کے نفاذ کا تفصیلی جائزہ لینا، مختلف محکموں کی پیش رفت رپورٹوں کا تجزیہ کرنا، صنفی مساوات میں درپیش چیلنجز کی نشاندہی کرنا اور آئندہ 2025-26 پالیسی کے لیے سفارشات مرتب کرنا تھا۔چیئرپرسن ڈاکٹر سمیرا شمس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا”صوبائی حکومت کا وژن اور PTI کا سیاسی وژن خواتین کے بااختیاری کے لیے ہم آہنگ ہیں، جو سابق وزیر اعظم عمران خان کے وژن کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ آج کی میٹنگ بنیادی طور پر سٹاک ٹیکنگ تھی کیونکہ ویمن امپاورمنٹ پالیسی 2017 بن چکی تھی لیکن اب تک اس کا ٹرو سینس نفاذ نہیں ہو سکا اور تقریباً 10 سال گزر چکے ہیں۔ 2026 میں ہمیں اس پالیسی کو اپڈیٹ کرنا ہے۔ آج ہم نے تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ویمن امپاورمنٹ پالیسی 2017 کو اپگریڈ کیا جائے گا۔اہم مسائل میں متعدد لوپ ہولز، پرانے ڈیٹا میں تبدیلی، اور فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کی شمولیت شامل ہے، جسے یقینی بنانا ضروری ہے۔ صوبائی حکومت کے وژن اور PTI کی ترجیحات کے مطابق آج ویمن امپاورمنٹ پالیسی پر پراپر آغاز ہوا، جس کی قیادت وومن کمیشن نے کی اور سوشل ویلفیئر سمیت دیگر محکمے شامل ہوں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ 2026 کے مینڈیٹ کے تحت پالیسی کو مارچ تک، جو ویمنز ڈے ہے، تک تیار کر کے صوبائی حکومت کو ایک مکمل اور مفصل دستاویز پیش کی جائے۔”ڈاکٹر سمیرا شمس نے اجلاس میں شریک تمام سرکاری، نجی اور بین الاقوامی اداروں کے نمائندگان کا شکریہ ادا کیا اور خواتین کے بااختیاری کے سفر میں ان کے تعاون کو سراہا۔اجلاس کے اختتام پر فیصلہ کیا گیا کہ ویمن امپاورمنٹ پالیسی 2017 کے نفاذ سے متعلق مزید مشاورتی اجلاس منعقد کیے جائیں گے، اور اگلا اجلاس 25 نومبر 2025ء کو منعقد ہوگا تاکہ تمام سفارشات کو حتمی شکل دی جا سکے۔