کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے خیبر پختونخوا میں ادارہ جاتی اقدامات مضبوط بنانے کا عزم

کم عمری کی شادی کی روک تھام اور بچیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے خیبر پختونخوا میں ادارہ جاتی اقدامات کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں ایک صوبائی شوکیسنگ تقریب منگل کے روز پشاور میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں محکمہ بلدیات، انتخابات و دیہی ترقی، گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی (یو این ایف پی اے)، برطانوی حکومت کے ادارہ برائے خارجہ، دولتِ مشترکہ و ترقی (ایف سی ڈی او)، سرکاری اداروں، سول سوسائٹی اور فرنٹ لائن اہلکاروں نے شرکت کی۔تقریب کے انعقاد کا مقصد یہ اجاگر کرنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں کم عمری کی شادی کی روک تھام کو مہم کے ساتھ ساتھ گورننس، سروس ڈیلیوری اور احتسابی نظام کا مستقل حصہ بنایا جائے اور اس ضمن میں اداراجاتی اقدامات کو مزید مستحکم اور منظم کیا جائے۔مقررین نے بتایا کہ محکمہ بلدیات کی کثیر سالہ اصلاحات اب کم عمری کی شادی کی روک تھام کو مقامی حکومت کی بنیادی ترجیح کے طور پر شامل کر چکی ہے۔شرکاء کو آگاہ کیا گیا کہ 2024 سے اب تک اس اقدام کے تحت خیبر پختونخوا بھر میں 976 فرنٹ لائن اور نگران افسران کو تربیت دی گئی ہے، جن میں 416 نکاح رجسٹرارز، 395 ویلج اور نیبرہوڈ کونسل سیکرٹریز اور 96 نگران افسران شامل ہیں۔ تربیتی پروگرامز میں بچوں کے تحفظ سے متعلق قوانین، کم عمری کی شادی، صنفی مساوات اور خاندانی قوانین پر خصوصی توجہ دی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ 33 ماسٹر ٹرینرز پر مشتمل ایک ورک فورس تیار کی گئی ہے تاکہ یہ عمل حکومتی ڈھانچے کے اندر مسلسل جاری رہے اور بیرونی معاونت پر انحصار کم ہو۔اس موقع پر ڈائریکٹر محکمہ بلدیات، انتخابات و دیہی ترقی خیبر پختونخوا سردارالملک نے کہا کہ نکاح رجسٹریشن کے نظام کو باقاعدہ، شفاف اور مؤثر بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق نگرانی اور معائنہ کے نظام کو مضبوط کر کے کم عمری کی شادی کی روک تھام کو روزمرہ انتظامی نگرانی کا حصہ بنایا جا رہا ہے، تاکہ قانون پر عملدرآمد صوبے کے تمام اضلاع میں یکساں اور پائیدار بنیادوں پر ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ کم عمری کی شادی کسی ایک طبقے یا کمیونٹی کا مسئلہ نہیں، اس لیے حکومت تمام برادریوں، بشمول اقلیتوں، میں نکاح رجسٹریشن کے نظام میں موجود خامیوں کو دور کر رہی ہے تاکہ ہر بچے کو برابر قانونی تحفظ مل سکے۔بتایا گیا کہ نکاح رجسٹرارز کے لیے معیاری سرٹیفکیشن اور تجدیدِ سرٹیفکیشن کے اصول وضع کیے جا چکے ہیں، جبکہ ہری پور اور نوشہرہ میں نگرانی اور مانیٹرنگ کے نظام کا پائلٹ منصوبہ بھی شروع کیا گیا ہے، جس سے عمر کی تصدیق، دستاویزات اور احتساب کے عمل کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔سابق ڈائریکٹر آپریشنز سعید الرحمن نے کہا کہ تجربات سے یہ واضح ہوا ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات شواہد پر مبنی ہونی چاہئیں اور فرنٹ لائن عملے میں سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق جب مقامی اہلکار قانون اور کم عمری کی شادی کے سماجی نقصانات کو سمجھتے ہیں تو روک تھام عملی سطح پر ممکن ہو جاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ نکاح نامے میں دلہا اور دلہن کی عمر کے لازمی خانے شامل کرنے اور نادرا کے اشتراک سے نکاح رجسٹریشن کو ڈیجیٹل بنانے کے لیے موبائل ایپ کا پائلٹ منصوبہ بھی زیرِ غور ہے۔چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے ڈپٹی چیف اعجاز احمد خان نے مقامی حکومتوں، نکاح رجسٹرارز اور تحفظاتی اداروں کے درمیان مضبوط رابطے کو بروقت نشاندہی اور مؤثر کارروائی کے لیے ضروری قرار دیا۔خیبر پختونخوا کمیشن برائے وقارِ نسواں کی چیئرپرسن ڈاکٹر سمیرا شمس نے کہا کہ نکاح رجسٹریشن قوانین کا مستقل نفاذ بچیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ریاستی عزم کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے جامع حکمتِ عملی اپنانے اور سی ایم آر اے بل کی منظوری پر بھی زور دیا۔گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سمین شیخ نے کہا کہ اس اقدام نے کم عمری کی شادی کی روک تھام کو ایک وقتی منصوبے کے بجائے حکمرانی کے نظام کا حصہ بنا دیا ہے۔ یو این ایف پی اے کی صوبائی کوآرڈینیٹر ماہ جبین قاضی نے کہا کہ پائیدار نتائج اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب اصلاحات حکومتی نظام کے اندر شامل ہوں۔تقریب کے اختتام پر اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ کم عمری کی شادی کا خاتمہ بچیوں کی تعلیم، صحت، تحفظ اور باوقار مستقبل کے لیے ناگزیر ہے اور اس مقصد کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات کا عمل مزید مضبوط بنایا جائے گا۔

مزید پڑھیں