خیبرپختونخوا کے وزیر برائے زراعت میجر ریٹائرڈ سجاد بارکوال نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کی معیشت اور لوگوں کے لیے زراعت ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ جہاں کل آبادی کا 80% حصہ دیہی ہے۔ ان کی روزی روٹی کا بنیادی ذریعہ زراعت ہے۔ زراعت صوبائی مجموعی جی ڈی پی میں 22 فیصد کا حصہ ڈالتی ہے اور 44 فیصد افرادی قوت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ روزگار فراہم کرتی ہے۔ اس شعبے کی ترقی، صوبے اور یہاں کے لوگوں کے لیے اہم فوائد کا باعث بن سکتی ہے۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار پشاور میں ساتویں زراعت شماری 2024 کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں سیکرٹری زراعت عطاء الرحمن، پاکستان بیورو آف شماریات کے ممبر آر ایم / ایس ایس محمد سرور گوندل، چیف آر اینڈ ڈی محکمہ منصوبہ بندی و ترقی خیبرپختونخوا حامد خان، ڈائریکٹر جنرل لائیو سٹاک ڈاکٹر اصل خان، ڈائریکٹر جنرل زراعت، ڈائریکٹر جنرل کراپ رپورٹنگ الطاف شاہ سمیت محکمہ زراعت اور لائیو سٹاک کے افسران سمیت اعلی حکام نے شرکت کی۔ تقریب میں کراپ رپورٹنگ کے فیلڈ سٹاف میں ساتویں زراعت شماری کے لیے ٹیبلٹ تقسیم کیے گئے۔ تقریب میں شرکاء کو ساتویں زراعت شماری 2024 کے لئے وضع کردہ طریقہ کار اور انکی پالیسی ساز میں اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومت کے باہمی تعاون سے صوبے بھر میں ساتویں زراعت شماری کی جارہی ہے۔ یہ زراعت شماری ڈیجیٹل طریقے سے کی جائے گی۔دوسرے صوبوں میں ساتویں زراعت شماری مکمل ہوگئی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں یکم جنوری سے 10 فروری تک جاری رہے گی۔صوبائی وزیر زراعت میجر ریٹائرڈ سجاد بارکوال نے اپنے خطاب میں ساتویں زراعت شماری میں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ پانچ سالہ زرعی پالیسی کی تیاری میں زراعت شماری کے اعدادوشمار سے استفادہ کیا جائے گا۔ساتویں زراعت شماری کے حوالے سے شرکاء کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا کی 2023 مردم شماری کے مطابق کل آبادی 4 کروڑ 8.5 لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ 2017 کی مردم شماری سے 53 لاکھ افراد کا اضافہ ظاہر کر رہی ہے۔ جب سن 2017 میں کل آبادی تقریباً 3 کروڑ 55 لاکھ تھی۔ 2017 سے 2023 کے درمیان سالانہ شرح نمو 2.58 فیصد رہی۔ چونکہ خیبرپختونخوا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اسے روکا بھی نہیں جا سکتا، اس کے نتیجے میں خوراک کی کھپت پر اس کا زیادہ اثر پڑے گا۔ ہمارے صوبہ میں گندم فصل کے زیر زمین رقبہ 48 فیصد آبپاش اور 52 فیصد غیر آبپاش ہے اور فی ایکڑ پیداوار بالترتیب 14 من اور 26 من ہوتی ہے۔ اسی طرح پنجاب اور ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کا 35 من فی ایکڑ ہے جبکہ بنگلادیش کا فی ایکڑ گندم کی پیداوار 37 من ہے۔ اسی طرح 1990 سے لیکر اب تک صوبہ خیبر پختونخواکا کل کاشت شدہ رقبہ 1.88 ملین ہیکٹر سے کم ہو کر 1.82 ملین ہیکٹر رہ گئی ہے۔ اس کمی کی بڑی وجہ صوبے کے دیہی اور شہری علاقوں میں زراعی اراضی کا رہائشی علاقے میں تبدیل ہونا ہے۔ اسی طرح سن 1990 تا 2023 قابل کاشت بنجر زمین 1040413 ہیکٹر (1.040 ملین ہیکٹر) سے بڑھ کر 1372299 ہیکٹر (1.372 ملین ہیکٹر) رہ گئی ہے۔ صوبائی وزیر زراعت میجر ریٹائرڈ سجاد بارکوال نے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت خیبرپختونخوا کو زرعی شعبے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک جامع پالیسی فریم ورک، جوزرعی پیداوار کو بڑھانے اور مشکلات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے کاشتکاروں کی مدد کرنے، انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے اور اس شعبے کی مجموعی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے وسائل کی نمایاں مختص کی ضرورت ہوگی۔ اگر نہیں، تو حکومت صحت اور تعلیم جیسے اہم ترقیاتی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے اپنے فنڈز کو غذائی اجناس کی خریداری کی طرف موڑنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔ اس کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔تقریب کے اختتام میں مہمانان میں شیلڈ تقسیم کی گئیں۔