وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا ہے کہ قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کا این ایف سی ایوارڈ میں حصہ 19.46 فیصد بنتا ہے، جسے تسلیم کرنا وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فوری طور پر عملی اقدامات کرے تاکہ ضم شدہ اضلاع کی ترقی یقینی بنائی جا سکے اور انہیں مزید محرومیوں سے بچایا جا سکے۔بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے مزید کہا کہ قبائلی اضلاع کی ترقی روکنے کی سازشیں ناکام ہوں گی، کیونکہ ان علاقوں کو پسماندہ رکھنا دہشت گردی کے فروغ کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ انضمام سے قبل خیبرپختونخوا کا این ایف سی میں حصہ 14.72 تھا جوکہ انضمام کے بعد اب 19.46 فیصد بنتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر انضمام کے بعد بھی قبائلی عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا تو یہ ریاست کے لیے نقصان دہ ہوگا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ خیبر پختونخوا کے بجلی کے خالص منافع، ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی فنڈز، این ایف سی ایوارڈ اور دیگر بقایاجات کی فوری ادائیگی کی جائے تاکہ صوبہ اپنے وسائل کے مطابق ترقی کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا، جو پہلے ہی دہشت گردی کا شکار رہا ہے، اسے دیوار سے لگانے کی کوششیں بند کی جائیں، کیونکہ ایسا کرنا قومی وحدت اور استحکام کے خلاف ہوگا۔بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے متنبہ کیا کہ اگر صوبے کو اس کا جائز حق نہ ملا تو ہم ہر سطح پر مزاحمت کریں گے، چاہے وہ سیاسی ہو یا قانونی۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا رویہ فیڈریشن کے خلاف بغاوت کے مترادف ہے، جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم خیرات نہیں، بلکہ اپنے آئینی حقوق مانگ رہے ہیں، اور ان کی پامالی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ہم ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے اور کسی بھی قیمت پر اپنے حقوق حاصل کرکے رہیں گے۔ اگر وفاقی حکومت نے مسلسل ناانصافیوں کا رویہ برقرار رکھا تو خیبر پختونخوا کے عوام اس پر خاموش نہیں رہیں گے۔