تحریر: انجینئر محمد اطہر سوری
آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باب 2 (آرٹیکل 29 تا 40) میں شامل “اصولِ پالیسی” کا مجموعہ ریاستی اداروں کی کارکردگی کے لیے ایک آئینی، اخلاقی اور تزویراتی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ یہ اصول ریاست کی اس ذمہ داری پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کو ان ہدایات کے مطابق ڈھالے جن کا مقصد ملک میں اسلامی، جمہوری اور ایک مضبوط فلاحی ریاست کی روح کو پروان چڑھانا ہے۔
آرٹیکل 29 واضح کرتا ہے کہ ہر ریاستی ادارے اور ہر شخص جو ریاست کی جانب سے کام کر رہا ہو، اس پر ان اصولوں کی پاسداری کرنا لازم ہے، تاہم ان اصولوں پر عملدرآمد دستیاب وسائل سے مشروط ہوتا ہے۔ جبکہ آرٹیکل 30 کے تحت، کسی بھی عمل یا قانون کی قانونی حیثیت کو اس بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اصولِ پالیسی کے مطابق نہیں ہے۔ یہ شق عدالتی مداخلت کو محدود کرتی ہے مگر ساتھ ہی، ریاستی اداروں پر آرٹیکل 29(3) کے ذریعے ہر سال اسمبلی میں عملدرآمد کی رپورٹ پیش کرنے کا فریضہ عائد ہوتا ہے، جو ایک داخلی احتسابی میکانزم فراہم کرتا ہے۔
یہ اصول سماجی اور معاشی انصاف کے حصول پر خصوصی زور دیتے ہیں۔ آرٹیکل 37 ریاست کو پسماندہ طبقات کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو فروغ دینے اور سستا و تیز رفتار انصاف یقینی بنانے کا پابند کرتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے سائنس و ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ نے اس سمت میں ٹیکنالوجی کے ذریعے جدید نفاذ کی مثالیں قائم کی ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ نے تعلیم میں بہتری کے لیے تحقیق و ترقی (R&D) پروگرامز اور ٹیکنالوجی انکیوبیشن سینٹرز قائم کیے ہیں۔ جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ نے گورنمنٹ کے عمل کو شفاف بنانے اور انصاف کی فراہمی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے جیل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم اور پراپرٹی ٹیکس ریکارڈز کی کمپیوٹرائزیشن جیسے منصوبے شروع کیے ہیں۔ اسی طرح، آرٹیکل 34 کے تحت خواتین کی قومی زندگی میں مکمل شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے 25 فیصد کوٹے کے ساتھ آئی ٹی ٹریننگز دی جا رہی ہیں، جس کے تحت انہیں وظیفہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
یہ اصول اخلاقی اور قومی یکجہتی کو بھی مرکزی اہمیت دیتے ہیں۔ آرٹیکل 33 کے ذریعے ہر قسم کے نسلی، قبائلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، اور محکمے نے یقینی بنایا ہے کہ تمام بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر اور بغیر کسی امتیاز کے ہوں۔ آرٹیکل 31 (اسلامی طریقہ زندگی) کی پاسداری کو یقینی بناتے ہوئے، ڈیپارٹمنٹ نے ملازمین کو نماز کی ادائیگی یقینی بنانے کی ترغیب دی ہے۔ آرٹیکل 38 میں شامل عوامی فلاح و بہبود کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، محکمے نے صنعت، صحت اور تعلیم میں ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اقدامات کیے ہیں تاکہ عوام کا معیار زندگی بلند ہو سکے۔ علاوہ ازیں، آرٹیکل 40 کے ذریعے مسلم دنیا سے تعلقات اور بین الاقوامی امن کو فروغ دینے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
ان اصولوں کے فوائد میں ریاستی افعال کو آئینی اور اخلاقی بنیاد فراہم کرنا، سماجی عدم مساوات کو کم کرنے کا روڈ میپ دینا، اور قومی یکجہتی کو مضبوط کرنا شامل ہے۔ تاہم، ان اصولوں کا انحصار وسائل کی دستیابی پر ہونے کی وجہ سے، بڑے فلاحی منصوبوں کی تکمیل میں معاشی چیلنجز حائل ہو سکتے ہیں۔ دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ کچھ اہم اہداف، جیسے ربا کا خاتمہ (آرٹیکل 38(f)) اور مسلح افواج میں شرکت (آرٹیکل 39)، وفاقی دائرہ کار میں آتے ہیں، جس سے صوبوں کا دائرہ عمل محدود ہو جاتا ہے۔
آخر میں بتاتا چلوں کہ اصولِ پالیسی صرف خواہشات کا پلندہ نہیں بلکہ ایک آئینی انجنئیرنگ ڈیزائن ہیں جو ریاست کو اس کی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان اصولوں کی کامیابی کا راز صرف قانون سازی میں نہیں، بلکہ ریاستی اداروں کے مضبوط سیاسی عزم اور نظاماتی عملدرآمد میں مضمر ہے، جیسا کہ ایس ٹی جیسے محکموں کی طرف سے ٹیکنالوجی کے ذریعے عوامی فلاح کو یقینی بنانے کی مثالیں ثابت کرتی ہیں۔
