Home Blog Page 16

خیرپختونخواہ سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے کا اصل حل

تحریر: انجینئر محمد اطہر سوری

اگر کسی قوم کے چند افراد اپنے ضمیر کا سودا کر لیں، بے شرمی کا لباس اوڑھ لے ، اور ترقی کے خوابوں پر رشوت کا پردہ ڈال دیں، تو وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ پاکستان کا دل اور پختونوں کی سرزمین، خیبر پختونخوا ، برسوں سے اس سماجی ناسور یعنی بدعنوانی کی لپیٹ میں رہی ہے۔ یہ محض مالی غبن نہیں، بلکہ یہ ریاست اور عوام کے درمیان موجود اعتماد کا قتل ہے۔ بدعنوانی دراصل ایک ایسا مہلک ناسور ہے جو کسی بھی صوبے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ عوام کے وسائل کو ان کے مستحق افراد سے چھین کر چند مفاد پرست افراد کی جیبوں میں منتقل کر دیتی ہے، جس کے نتیجے میں تعلیمی معیار، صحت کی سہولیات، امن، انسانیت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی رک جاتی ہے۔ ایسے نازک حالات میں، جہاں امن و معیشت کی پائیداری سب سے بڑی ضرورت ہو، بدعنوانی کے خلاف یہ جنگ دراصل صوبے کی تقدیر اور نسلوں کی بقا کا فیصلہ کن معرکہ ہے۔
انسدادِ بدعنوانی محض جذباتی نعرہ نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ اور ٹھوس عزم ہے جس کا مقصد عوامی اختیار کے ناجائز استعمال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اس کا بنیادی ہدف دیانت داری، شفافیت، اور انصاف پر مبنی ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جہاں میرٹ کو ہی سب سے بڑی سفارش سمجھا جائے۔ یہ کوششیں صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہر شہری کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لعنت کے خلاف اپنی آواز بلند کرے۔

بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا نے اس جنگ کو جیتنے کی خاطر کئی مثالی اور انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔
صوبائی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (ACE) کو سیاسی دباؤ سے آزاد کر کے مضبوط کیا گیا ہے تاکہ وہ احتساب بلا امتیاز کو یقینی بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، نظام میں موجود بدعنوانی کی سب سے بڑی جڑ، یعنی لینڈ ریکارڈز کو، مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنے کا عمل جاری ہے۔ اس اقدام نے پٹوار خانوں میں صدیوں سے رائج رشوت خوری اور دھوکہ دہی کی بنیاد کو ختم کرنے کی شروعات کر دی ہے۔
اس کے علاوہ حکومت خیبر پختونخوا نے ٹیکنالوجی کو بدعنوانی کے خلاف کلیدی ہتھیار بنایا ہے۔ ای-گورننس اور آن لائن سروسز کے ذریعے شہریوں اور سرکاری اہلکاروں کے درمیان براہ راست رابطے کو کم کیا گیا ہے، جس سے رشوت ستانی کے مواقع خود بخود کم ہوئے ہیں۔
مزید برآں، مضبوط رائٹ ٹو انفارمیشن قانون نے عام شہریوں کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ حکومتی اداروں سے ان کے فنڈز کے استعمال اور فیصلوں کے بارے میں سوال کر سکیں۔ یہ قانون عوام کو حکومتی فیصلوں کا نگہبان بناتا ہے، جس سے خود بخود جوابدہی کا کلچر پروان چڑھتا ہے۔
یہ اقدامات قابل تعریف ہے۔ اِسکے علاوہ اور بھی بہت سے وفاقی اور صوبائی ڈیپارٹمنٹ بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنے کے خلاف جہاد کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں ابھی تک بدعنوانی کا جڑ سے خاطمہ ممکن نہ ہو سکا۔
میرے خیال میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ پاکستان کے کئی سرکاری محکموں، خاص کر صوبہ خیبر پختونخوا میں یکساں سروس سٹرکچر، پروموشن کے مساوی مواقع، اور سکیل کے مطابق تنخواہ میں تضاد ایک سنگین بد انتظامی ہے۔ جب ایک ہے حکومت میں ایک ہی ملک یا صوبہ میں ہائی کوالیفائید، قابل اور ذہین ملازمین طویل عرصے تک ایک ہی سکیل میں پھنسے رہتے ہیں اور ان کی محنت کا صلہ نہیں ملتا تو وہ مایوسی، احساسِ کمتری اور محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ذہنی دباؤ اور ناانصافی انہیں اپنے اخلاقی اصولوں سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے، اور انصاف سے محروم یہ افراد بدعنوانی کو اپنے مالی اور معاشرتی خلا کو پُر کرنے کا ذریعہ سمجھ کر اختیار کر لیتے ہیں۔
لہٰذا، بدعنوانی صرف رشوت یا وطن کے اثاثوں کو نقصان پہنچانے تک محدود نہیں بلکہ ناقص سروس سٹرکچر، تنخواہوں میں تضاد، غیر منصفانہ پروموشن، اور مواقع کی عدم دستیابی بھی اسے فروغ دیتی ہے۔ جب نظام خود ناانصافی پر مبنی ہو تو وہ دیانت دار ملازمین کو بھی بدعنوانی کی طرف دھکیلتا ہے، جس سے ملک کی ترقی کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور یہ ایک شیطانی چکر بن جاتا ہے۔
اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے تمام محکموں میں یکساں قوانین پر مبنی سروس سٹرکچر کا نفاذ، سکیل اور عہدے کے مطابق تنخواہوں میں یکسانیت، پروموشن کے عمل میں مکمل شفافیت اور ڈیجیٹلائزیشن، اور صلاحیت کی بنیاد پر بروقت ترقی کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف دیانت دار ملازمین کو تحفظ دیں گے بلکہ بدعنوانی کے فروغ کا راستہ بھی ہمیشہ کے لیے بند کر دیں گے۔لہٰذا، آئندہ 9 دسمبر کے عالمی یومِ انسدادِ بدعنوانی کے موقع پر، خدمات کے ڈھانچے اور تنخواہوں میں موجود اِن تضادات کو کم کرنے کی حکمت عملی پر ضرور غور و خوض ہونا چاہیے، کیونکہ یہی بدعنوانی کے بنیادی محرکات کو ختم کر سکتی ہے۔

موجودہ وزیر اعلیٰ جناب محمد سہیل آفریدی کا مضبوط موقف ہے کہ حکومت بدعنوانی کے لیے صفر رواداری کی پالیسی اپنائے گی۔ ان کا وژن یہ ہے کہ عوام کے پیسے کا ایک ایک روپیہ انتہائی دیانت داری اور شفافیت کے ساتھ ان کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو۔ ان کی اولین ترجیح انتظامی امور کی ڈیجیٹل تبدیلی اور قانون کی بالادستی ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ صوبے کو نئی اور روشن جہتوں پر لے جانے کے لیے پُرعزم ہیں۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگر ہم بدعنوانی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں تو اس کے حیرت انگیز فوائد پوری قوم کو حاصل ہوں گے۔ سب سے پہلے، ملک کا قومی خزانہ مضبوط ہو گا اور بچ جانے والے وسائل تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا اور صوبے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں، انشاء اللہ، خیبر پختونخوا میں حکومتی رٹ مضبوط ہو گی، تنخواہوں میں تضاد کا خاتمہ ہو گا،یکساں سروس اسٹرکچر کے مساوی مواقع ملیں گے ، عوام کو انصاف ملے گا، اور یہ صوبہ امن و خوشحالی کا ایک عظیم گہوارہ بن جائے گا، جو پورے ملک کے لیے ایک مثال ہو گا۔

خیبرپختونخوا کے وزیر آبپاشی ریاض خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر جاری پُرامن احتجاج میں شرکت کی

خیبرپختونخوا کے وزیر آبپاشی ریاض خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر جاری پُرامن احتجاج میں شرکت کی، جو قائد عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف قائم مقدمات کی سماعت میں تاخیر کے خلاف منعقد کیا گیا تھا۔ احتجاج میں صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی، پارٹی رہنماؤں، وکلاء اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر مظاہرین نے مؤقف اختیار کیا کہ قائد عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف قائم مقدمات کی سماعت جلد از جلد مقرر کی جائے تاکہ شفاف اور بروقت انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔ شرکاء نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی، دیگر منتخب قیادت اور اہل خانہ کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ دینا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ آئینی و جمہوری اصولوں کے بھی منافی ہے۔ صوبائی وزیر ریاض خان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سمیت عوامی نمائندوں، وکلاء، علیمہ خان اور دیگر بہنوں کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دی جانی چاہیے تاکہ وہ ان کی خیریت، صحت اور موجودہ صورتحال سے براہ راست آگاہ ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے قائد عمران خان کا حال پوچھنا اہل خانہ، ہر شہری اور منتخب نمائندے کا بنیادی، قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ ریاض خان کا کہنا تھا کہ ایک پورے صوبے کے منتخب وزیر اعلیٰ کو اپنے قائد سے ملاقات سے روکنا نہایت تشویشناک ہے اور یہ طرز عمل جمہوری روایات کے منافی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وزیراعلیٰ محمد سہیل آفریدی نہ صرف ایک عوامی نمائندہ بلکہ ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں اور اپنے قائد سے ملاقات ان کا جائز اور آئینی حق ہے۔ صوبائی وزیر نے پُرزور مطالبہ کیا کہ عمران خان سے ملاقات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں فوری طور پر دور کی جائیں کیونکہ شفاف معلومات اور براہ راست رابطہ ایک صحت مند جمہوری عمل کا لازمی حصہ اور قومی استحکام کے لیے ناگزیر ہے انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی منتخب قیادت اور عوام آئین و قانون کی بالادستی، شفاف ٹرائل اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے پُرامن اور آئینی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ریاض خان نے مطالبہ کیا کہ قائد عمران خان، بشریٰ بی بی اور دیگر اسیران کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مسلسل حراست نہ صرف عوام کے جذبات کو مجروح کر رہی ہے بلکہ یہ معاملہ آئینی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔

خیبرپختونخوا فوڈ اتھارٹی کی بڑی کارروائیاں، پشاور، مردان اور نوشہرہ میں غیر معیاری خوردنی اشیاء کی بھاری کھیپ پکڑی گئی

خیبرپختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی نے غیر معیاری اور مضر صحت خوراک کی تیاری و سپلائی میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے گزشتہ روز پشاور، مردان اور نوشہرہ میں بڑی کارروائیاں کیں۔ ٹیموں نے سینکڑوں کلوگرام بوسیدہ چکن، ممنوعہ چائنہ سالٹ اور جعلی برانڈڈ مشروبات کی خالی بوتلوں کی بھاری کھیپ برآمد کر لی۔ترجمان فوڈ اتھارٹی نے تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں فوڈ اتھارٹی ٹیم نے ضلعی انتظامیہ کے ہمراہ پھندو روڈ پر کارروائی کرتے ہوئے ایک گاڑی سے 500 کلوگرام سے زائد خراب اور بوسیدہ چکن برآمد کرکے موقع پر تلف کیا، جبکہ ملوث ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کردی گئی۔ترجمان نے بتایا کہ مردان میں فوڈ سیفٹی ٹیم نے نوشہرہ روڈ پر پولیس کے ہمراہ ناکہ بندی کے دوران ایک گاڑی سے 375 کلوگرام سے زائد ممنوعہ چائنہ سالٹ ضبط کیا، جو مختلف بازاروں میں سپلائی کیا جانا تھا۔مزید بتایا گیا کہ رسالپور صنعتی زون میں فوڈ سیفٹی ٹیم نے ایک یونٹ پر اچانک چھاپہ مار کر جعلی برانڈڈ مشروبات کی خالی بوتلوں کی بھاری کھیپ برآمد کی۔ یونٹ کو سیل کردیا گیا، یونٹ میں نصب مشینری سرکاری تحویل میں لے لی گئی اور ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ مزید قانونی کارروائی فوڈ سیفٹی ایکٹ کے تحت جاری ہے۔ڈائریکٹر جنرل فوڈ اتھارٹی واصف سعید نے کامیاب کارروائیوں پر فوڈ سیفٹی ٹیموں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل خان آفریدی اور چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ کی ہدایات کے مطابق صوبہ بھر میں غیر معیاری خوراک کے خلاف بھرپور اور مؤثر اقدامات جاری رہیں گے۔

مالیاتی حقوق کے حصول اور عوامی بیداری کی ایک کامیاب مہم

تحریر: ڈاکٹر انجینئر محمد اطہر سوری

آج یکم دسمبر 2025 کو خیبر پختونخوا میں مالیاتی حقوق کے حصول کے لیے ایک غیر معمولی عوامی، علمی اور سیاسی تحریک نے ملکی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ یہ تحریک بنیادی طور پر قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق آگاہی بڑھانے اور صوبے کے جائز مالیاتی حقوق کی فراہمی کے لیے منظم کی گئی تھی اور اس نے نہ صرف عوام بلکہ علمی اور سیاسی حلقوں میں بھی گہرا اثر چھوڑا۔ اس مہم کے دوران سیمینارز، علمی مباحثے اور میڈیا پروگرامز کے ذریعے عوام میں مالیاتی شفافیت، ضم شدہ اضلاع کے مسائل اور صوبے کے مالی حقوق کے حوالے سے شعور پیدا کیا گیا۔

مالیاتی حقوق اور عوامی بیداری کے درمیان تعلق کو سمجھنا اس تحریک کی کامیابی کی کلید ہے۔ خیبر پختونخوا کی عوام طویل عرصے سے اپنے مالیاتی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، خاص طور پر ضم شدہ اضلاع کے مسائل میں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے 2010 کے بعد نئے NFC ایوارڈ کی تعیناتی میں تاخیر نے صوبے کو اربوں روپے کے واجبات سے محروم کر دیا ہے، جس کا اثر ترقیاتی منصوبوں، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع پر براہِ راست پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک نے نہ صرف طلباء بلکہ علمی اور سیاسی حلقوں کو بھی ایک صفحے پر لا کھڑا کیا۔

یہ مہم ایبٹ آباد، پشاور، کرک، ڈیرہ اسماعیل خان اور ضم شدہ اضلاع تک پھیلی ہوئی تھی جس میں خیبر پختونخوا کی تقریباً تمام جامعات نے بھرپور حصہ لیا۔ یونیورسٹی آف سوات، یو ای ٹی مردان، ویمن یونیورسٹی مردان، جامعہ باچا خان، فاٹا یونیورسٹی، ڈیرہ آدم خیل یونیورسٹی اور خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک میں ہزاروں طلباء نے شرکت کی جس نے اس مسئلے پر عوامی شعور کی گہرائی اور طلباء کی سیاسی و سماجی شعور کے ارتقاء کو واضح کیا۔ ان علمی مباحثوں میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرز اور حکام بھی موجود تھے جبکہ سابق چیف سیکرٹری فنانس سید سعید بادشاہ بخاری اور سابق مشیر خزانہ حمایت اللہ خان نے کلیدی خطاب کیے جنہوں نے مالی خودمختاری اور 18ویں ترمیم کے چیلنجز کی اہمیت واضح کی۔

طلباء اور علمی درسگاہ کے علاوہ سیاسی حمایت بھی اس مہم کی کامیابی میں کلیدی عنصر ثابت ہوئی۔ کوہاٹ یونیورسٹی میں ہونے والے سیمینار میں وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی شفیع اللہ جان، سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی اور ڈیڈاک چیئرمین داؤد آفریدی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس سے یہ پیغام گیا کہ صوبائی حکومت ضم شدہ اضلاع کی مالی محرومی اور 4 ہزار ارب روپے کے واجبات کے معاملے پر سنجیدہ ہے۔ اس طرح عوام، علمی حلقے اور سیاسی قیادت ایک مشترکہ موقف پر متفق ہوئے جو 4 دسمبر کو ہونے والے NFC اجلاس کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔

عوامی سطح پر اس آگاہی کو بڑھانے کے لیے میڈیا کا کردار بھی نہایت اہم رہا۔ پختونخوا ریڈیو کوہاٹ اور ریڈیو سوات نے NFC کے معاملے پر دو گھنٹے کا خصوصی پروگرام نشر کیا جو کہ انٹرنیٹ لنک کے ذریعے ریڈیو پختونخوا کرم، ریڈیو پختونخوا وانا اور ریڈیو پختونخوا رزمک سمیت دیگر اسٹیشنز پر براہِ راست سنا گیا۔ اس پروگرام میں سامعین نے بھرپور دلچسپی ظاہر کی اور سوالات و جوابات کے ذریعے مالیاتی حقوق کے معاملے میں اپنی آگاہی میں اضافہ کیا۔ اس اقدام نے نہ صرف عوامی شعور میں اضافہ کیا بلکہ صوبے کی مالی خودمختاری کے لیے ایک طاقتور عوامی مینڈیٹ بھی تشکیل دیا۔

یہ تحریک واضح کرتی ہے کہ مالیاتی حقوق صرف اعداد و شمار یا بجٹ کی بات نہیں بلکہ اس کا تعلق عوام کی روزمرہ زندگی سے ہے۔ جب صوبے کو اس کے واجبات کی ادائیگی نہیں کی جاتی تو ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں بنیادی ڈھانچہ غیر مؤثر رہتا ہے اور عوام کی بنیادی ضروریات جیسے تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہم نے عوامی شعور اور سیاسی دباؤ دونوں پیدا کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

اس تحریک کے دوران اٹھائے گئے کلیدی مطالبات میں خیبر پختونخوا کے 4 ہزار ارب روپے کے واجبات کی فوری ادائیگی، ضم شدہ اضلاع کے لیے 100 ارب روپے سالانہ کے وعدہ شدہ فنڈز کی مکمل فراہمی اور نئے NFC ایوارڈ کے انعقاد کی درخواست شامل تھی۔ یہ مطالبات واضح طور پر یہ پیغام دیتے ہیں کہ صوبے کے ترقیاتی منصوبے، امن و امان اور عوامی خوشحالی کی بنیاد مالیاتی حقوق کی فراہمی پر منحصر ہے۔ اگر یہ حقوق فراہم نہ کیے گئے تو صوبے میں ترقیاتی کاموں کی رفتار سست ہو جائے گی اور عوام میں ناانصافی کا احساس بڑھ سکتا ہے۔

یہ مہم صرف ایک تعلیمی یا سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ ایک مکمل عوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس میں طلباء، علمی ماہرین، سیاسی رہنما، میڈیا اور عوامی نمائندگان نے شرکت کی جس نے صوبے کے ہر طبقے میں مالیاتی حقوق کے حوالے سے شعور پیدا کیا۔ یہ تحریک نہ صرف موجودہ صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ مستقبل میں مالیاتی انصاف کے حصول کے لیے ایک مستحکم بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔

مزید برآں اس مہم نے خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع کے مالی مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔ یہ علاقے طویل عرصے سے وفاقی اور صوبائی مالی وسائل میں مساوی حصہ نہیں لے پائے جس کے نتیجے میں بنیادی ڈھانچے، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع میں شدید کمی رہی۔ اس تحریک نے ضم شدہ اضلاع کے عوام کو بھی یہ پیغام دیا کہ ان کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جا رہا اور ان کے حقوق کے لیے وسیع پیمانے پر آگاہی پیدا کی جا رہی ہے۔

نیشنل مالیاتی کمیشن کے حوالے سے اس مہم کی اہمیت اس میں بھی پوشیدہ ہے کہ یہ صوبائی حکومت کے موقف کو مضبوط کرتی ہے۔ جب عوام، علمی حلقے اور سیاسی قیادت ایک مشترکہ موقف اپنائیں تو وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ صوبے کے جائز حقوق فراہم کرے۔ یہی مشترکہ موقف خیبر پختونخوا کی ترقی، امن و امان اور عوامی خوشحالی کے لیے نہایت اہم ہے۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یکم دسمبر 2025 کی یہ مہم نہ صرف خیبر پختونخوا میں مالیاتی حقوق کے حصول کی ایک کامیاب کوشش تھی بلکہ اس نے عوامی شعور، علمی اور سیاسی حمایت کے ذریعے ایک مضبوط عوامی مینڈیٹ بھی تشکیل دیا۔ یہ تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ جب عوامی آگاہی، علمی بصیرت اور سیاسی حمایت یکجا ہو جائے تو مالیاتی انصاف اور صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے غیر معمولی نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس مہم کی کامیابی مستقبل میں صوبے کی مالی خودمختاری، ضم شدہ اضلاع کے مسائل کے حل اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گی اور یہ یقینی بنائے گی کہ خیبر پختونخوا کے عوام اپنے جائز حقوق کے لیے متحد اور باخبر ہیں۔

خیبرپختونخوا کے وزیر بلدیات مینا خان آفریدی نے 04 دسمبر کو ہونے والے نیشنل فنانس کمیشن کے حوالے موقف اختیار کیا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس بلانا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مالی معاملات کی منصفانہ تقسیم خیبرپختونخوا حکومت کا روز اول سے مطالبہ رہا ہے۔

خیبرپختونخوا کے وزیر بلدیات مینا خان آفریدی نے 04 دسمبر کو ہونے والے نیشنل فنانس کمیشن کے حوالے موقف اختیار کیا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس بلانا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مالی معاملات کی منصفانہ تقسیم خیبرپختونخوا حکومت کا روز اول سے مطالبہ رہا ہے۔ اس متوقع اجلاس میں خیبرپختونخوا کا مقدمہ پیش کریں گے۔ خیبرپختونخوا کی تمام جماعتیں صوبے کے حقوق کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صوبوں کے درمیان مالی معاملات آئین کے مطابق منصفانہ طور پرتقسیم نہیں ہو رہے۔ ضم اضلاع کے لیے فارمولے کے مطابق طے شدہ فنڈز بھی صوبے کو نہیں فراہم کئے جا رہے۔ طے شدہ فارمولا کے مطابق، 2018 سے لے کر اب تک خیبرپختونخوا کا وفاق کے ذمہ واجب الادا رقم 1500 ارب ہیں۔این ایف سی کے حوالے سے صوبائی حکومت کی اقدامات پر بات کرتے ہوئے مینا خان آفریدی نے کہا کہ صوبائی حکومت کی ہدایات پر جامعات کی سطح پر اگہی سیمینارز، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ خصوصی پروگرامز منعقد ہوئے تاکہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لیا جائے۔ انہوں نے کہاُکہ این ایف سی ایوارڈ کو مزید بہتر بنانے کے لیے دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر مزید آپشنز بھی فورم کے سامنے رکھے جائیں گے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ اے جی این فارمولا کے تحت نٹ ہائیڈل پاور منافع کے کئی سو ارب روپے بھی وفاق کے ذمہ ہمارے بقایا جات ہیں اس پر بھی بات ہوگی۔ ضم اضلاع کے بعد خیبرپختونخوا کو دہشت گردی کے نقصانات کے ازالے کی مد میں دئیے جانے والے فنڈز میں اضافے کا مطالبہ پیش کریں گے۔

جامعہ پشاور میں این ایف سی ایوارڈ اور خیبر پختونخوا کے مالی چیلنجز کے موضوع پہ سیمینار کا انعقاد

یونیورسٹی آف پشاور کے سر صاحب زادہ عبدالقیوم میوزیم کانفرنس ہال میں پیر کے روز ایک روزہ سیمینار“این ایف سی ایوارڈ اور خیبر پختونخوا کو درپیش چیلنجز”کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اس سیمینار میں سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، ماہرینِ تعلیم اور طلبہ نے شرکت کی، جس میں صوبے کو درپیش مالی مسائل پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔یہ سیمینار سوسائٹی آف اکنامکس اینڈ ڈویلپمنٹ اسٹوڈنٹس (SEDS) نے ڈیولپمنٹ انسائٹس لیب (DIL)، اور بزنس انکیوبیشن سینٹر، یونیورسٹی آف پشاور کے باہمی تعاون سے ترتیب دیا۔سیمینار کی نظامت ڈاکٹر فہیم نواز، ڈپٹی کوآرڈی نیٹر DIL اور کوآرڈی نیٹر SEDS نے انجام دی۔یونیورسٹی آف پشاور کے وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر جوہر علی نے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور پاکستان کے مالی مستقبل کی تشکیل میں شواہد پر مبنی پالیسی مباحثوں کی اہمیت پر زور دیا۔شعب? معاشیات کے چیئرمین ڈاکٹر سجاد احمد جان نے کلیدی خطاب پیش کیا، جس میں انہوں نے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تکنیکی پہلوؤں پر جامع روشنی ڈالی، جن میں بین الصوبائی مالی تعلقات، ریونیو تقسیم کے طریقہ کار، اور صوبوں کو منتقل کی گئی مالی ذمہ داریاں شامل تھیں۔تقریب میں شریک نمایاں سیاسی رہنماؤں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے احمد کنڈی، عوامی نیشنل پارٹی کی شگفتہ ملک، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے عبدل جلیل جان، پاکستان تحریک انصاف کے کامران بنگش، پاکستان تحریک انصاف کے تیمور سلیم جھگڑا, جماعت اسلامی کے عنایت اللہ خان، اور عوامی نیشنل پارٹی کے صلاح الدین مہمند شامل تھے۔ ان سیاسی رہنماؤں نے خیبر پختونخوا کے مالی حقوق، این ایف سی ایوارڈ میں تاخیر کے اثرات، ضم شدہ اضلاع کے مالی بوجھ، اور شفاف و منصفانہ تقسیم کے فارمولے کی ضرورت پر اپنے نقطہ نظر پیش کیے۔معروف صحافی لحاظ علی، فدا عدیل، اور محمود جان بابر نے بھی سیمینار سے خطاب کیا اور میڈیا کے نقط? نظر، عوامی توقعات اور مالیاتی معاملات میں شفافیت اور جوابدہی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔اختتامی سیشن میں جامعہ پشاور کے وائس چانسلر نے تمام مقررین، منتظمین اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور صوبے کے اہم ترین مالی مسائل پر بامعنی اور بروقت مکالمہ منعقد کرنے کو سراہا۔ سیمینار سوال و جواب کے سیشن اور گروپ فوٹو کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

کے ایم یوکے زیر اہتمام خیبر پختونخوا کے این ایف سی حصے اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے مالی و انتظامی چیلنجزکے موضوع پر سیمینار کا انعقاد

خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) پشاور کے زیر اہتمام وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایت پر ”خیبر پختونخوا کے این ایف سی حصے اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے مالی و انتظامی چیلنجز“ کے موضوع پر خصوصی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں اساتذہ، ایڈمن سٹاف اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔سیمینار کے مہمانِ خصوصی اور مرکزی مقرر پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی تھے جو سابق چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور، سابق ڈائریکٹر HEARTاور حالیہ پروفیسر شعبہ? پولیٹیکل سائنس، انٹرنیشنل ریلیشنز اور پاکستان اسٹڈیز، قرطبہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ آئی ٹی پشاور ہیں۔ انہوں نے موضوع پر جامع تحقیقی و تجزیاتی گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے آئینی حقوق، وفاقی مالیاتی ڈھانچے کی کمزوریوں اور ضم شدہ اضلاع کے سنگین مسائل کو نہایت تفصیل سے بیان کیا۔انہوں نے کہا کہ آئینِ پاکستان کے تحت نیشنل فنانس کمیشن وفاقی مالیاتی نظام کی بنیاد ہے، جس کے ذریعے وفاق کے قابل تقسیم محاصل میں سے صوبوں کا حصہ طے ہوتا ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ نے آبادی، پسماندگی، صوبائی محصولات، اور آبادی کثافت جیسے معیار مقرر کیے، تاہم اب بھی 82 فیصد وزن آبادی کو دیا جاتا ہے، جس سے چھوٹے صوبے خصوصاً خیبر پختونخوا مالی لحاظ سے مسلسل محرومی کا شکار ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا کئی دہائیوں سے جنگ زدہ صوبہ ہے جہاں دہشت گردی، معاشی بدحالی اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایسے میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے وفاق کی جانب سے اعلان کردہ سالانہ 100 ارب روپے تاحال فراہم نہ کرنا صوبے کے ساتھ سنگین ناانصافی ہے۔ انہوں نے مردم شماری کے نتائج پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کی آبادی کو کم ظاہر کیے جانے سے صوبہ این ایف سی میں اپنے جائز حصے سے محروم کیا جا رہا ہے۔سیمینار میں اس بات پر زور دیا گیا کہ آرٹیکل 160 اور 161 صوبوں کے مالی حقوق کی واضح آئینی ضمانت دیتے ہیں، جس میں خالص ہائیڈل منافع اور گیس و پٹرولیم اور دیگر قدرتی معدنیات کی رائلٹی شامل ہیں، مگر خیبر پختونخوا تاحال اس کے ثمرات پوری طرح حاصل نہیں کرسکا۔ آرٹیکل 172(3) کے مطابق قدرتی وسائل کی ملکیت وفاق اور صوبے کی مشترکہ ہوتی ہے، لہٰذا وسائل کی پیداوار اور آمدن کے شفاف اعداد و شمار صوبوں سے نہیں چھپائے جانے چاہئیں۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی نے کہا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کی فوری تشکیل، مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کے اجلاسوں کی باقاعدگی، اور قومی سطح پر بہتر بین الحکومتی ہم آہنگی ناگزیر ہو چکی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا خیرات نہیں بلکہ اپنا آئینی حصہ مانگتا ہے، اور جب تک منصفانہ وسائل کی تقسیم یقینی نہیں بنائی جاتی قومی یکجہتی اور صوبائی اعتماد ایک چیلنج بنا رہے گا۔سیمینار کے اختتام پر شرکاء نے اس امید کا اظہار کیا کہ خیبر پختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کو ان کے جائز حقوق کی خاطر وفاق اور صوبے باہمی اعتماد، آئینی تقاضوں اور شفاف پالیسی ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کیپر امن حل کی طرف بڑھیں گے۔

یو ای ٹی مردان میں این ایف سی شیئر اور خیبر پختونخوا کے مالی چیلنجز پر آگاہی سیمینار

 یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) مردان میں “این ایف سی شیئر اور خیبر پختونخوا کو درپیش چیلنجز” کے موضوع پر ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار میں ای جرگہ کے بانی اور گورننس و ادارہ جاتی اصلاحات کے ماہر نور محمد اور یونیورسٹی آف ملاکنڈ کے چیئرمین شعبہ سیاسیات پروفیسر ڈاکٹر مراد علی نے خصوصی لکچرز دئیے۔
اس سیمینار کا مقصد قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کی اہمیت اجاگر کرنا اور خصوصاً سابق قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کو درپیش مالی و انتظامی چیلنجز پر روشنی ڈالنا تھا۔ مقررین نے مالی منصوبہ بندی، وسائل کی تقسیم، حکومتی ڈھانچوں اور خطے کی پائیدار ترقی کی حکمتِ عملیوں پر تفصیلی پریزنٹیشنز دیں۔
طلبہ، اساتذہ اور محققین نے بھرپور حصہ لیتے ہوئے بین الصوبائی مالی عدم مساوات، ترقیاتی ترجیحات اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کی فوری ضرورت کے حوالے سے مفید بحث میں حصہ لیا۔
مقررین نے ادارہ جاتی صلاحیت میں اضافے، بہتر حکمرانی کے نظام اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی اپنانے پر زور دیا تاکہ صوبے کو درپیش سماجی و اقتصادی مسائل کا بہتر حل نکالا جا سکے۔
آخر میں یونیورسٹی انتظامیہ نے مہمان مقررین کے قیمتی خیالات کو سراہا اور طلبہ میں گورننس اور پبلک پالیسی سے متعلق آگاہی بڑھانے کے لیے مستقبل میں بھی ایسے سیشنز کے انعقاد کے عزم کا اظہار کیا۔

ویمن یونیورسٹی مردان میں خیبر پختونخوا کے این ایف سی شیئر اور ضم شدہ اضلاع کے مالی مسائل پر سیمینار کا انعقاد

ویمن یونیورسٹی مردان نے وزیر اعلیٰ/چانسلر حکومت خیبر پختونخوا کی ہدایات کی روشنی میں “این ایف سی شیئر اور چیلنجز آف خیبر پختونخوا” کے موضوع پر ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد مین ہال میں کیا۔ اس سیمینار کا مقصد صوبے کی آئینی حیثیت، این ایف سی ایوارڈ میں اس کے جائز حق، ضم شدہ اضلاع کی مالی محرومی، اور انتظامی و مالی انضمام کے درمیان موجود خلا سے متعلق آگاہی فراہم کرنا تھا۔

تقریب کی صدارت وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے سابق مشیر برائے خزانہ و توانائی حمایت اللہ خان نے کی جنہوں نے اپنے وسیع تجربے کی
بنیاد پر صوبے کے مالی حقوق، این ایف سی میں صوبے کے جائز مطالبات، ضم شدہ اضلاع کی تاریخِ محرومی، اور مالی انضمام میں تاخیر کے سبب ترقیاتی و انتظامی مسائل پر جامع روشنی ڈالی۔ انہوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی مالی خودمختاری، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مساوی وفاقیت کے تناظر میں درپیش چیلنجز کی اہمیت بھی اجاگر کی۔
وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی مردان، پروفیسر ڈاکٹر رضیہ سلطانہ نے اپنے خطاب میں آئندہ 4 دسمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے این ایف سی اجلاس کے تناظر میں صوبے کے مالی مسائل سے متعلق طلبہ، اساتذہ اور علمی حلقوں کو باخبر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ویمن یونیورسٹی مردان قومی اور صوبائی پالیسی معاملات پر تحقیقی و علمی مباحثے کو فروغ دینے میں اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرتی رہے گی۔ سیمینار میں مختلف شعبہ جات کے اساتذہ، انتظامی عملے اور بڑی تعداد میں طلبہ نے شرکت کی۔ شرکاء نے این ایف سی شیئر کی عدم فراہمی کے باعث پیدا ہونے والے ترقیاتی مسائل، ضم شدہ اضلاع کے مالی حقوق اور صوبے کو درپیش مالی مشکلات پر مفصل گفتگو میں حصہ لیا۔ ویمن یونیورسٹی مردان صوبے اور ملک کے اہم سماجی و معاشی مسائل پر تحقیق اور مباحثے کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔

جامعہ باچا خان میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خصوصی ہدایت پر این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے ایک روزہ آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا

جامعہ باچا خان میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خصوصی ہدایت پر این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے ایک روزہ آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سابق چیف سیکرٹری فنانس سید سعید بادشاہ بخاری نے بطور مہمان حصوصی شرکت کی۔ وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خان عالم نے مہمان مقرر کا خیر مقدم کیا۔
اس موقع پر طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے اہم موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کی اور سوال وجواب کے سیشن میں مقررین سے صوبے کے حقوق سے متعلق مختلف سوالات پوچھے۔
آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خان عالم اور ڈاکٹر سید سعید بخاری کا کہنا تھا کہ آج کے سیمینار کا بنیادی مقصد طلباء و طالبات کو صوبے کے مالی حقوق سمیت صوبے کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے آگاہ کرنا ہے۔این ایف سی ایوارڈ کے شفاف انعقاد سے صوبے کو مالی خو دمختیاری ملی گی جبکہ وفاق سے صوبے کو ملنے والے فنڈز تعلیم اور صحت سمیت دیگر شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جا سکے گے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ خیبر پختونخوا کو اس کے آبادیاتی اور جغرافیائی ضروریات کے مطابق حصہ ملے۔ مقررین کے مطابق بہتر مالی انتظام اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے، صوبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور علاقائی استحکام اور سماجی و اقتصادی ترقی میں مدد ملتی ہیں اس لئے قدرتی وسائل پر رائلٹی صوبے کے آمدن کا بہتر ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے انعقاد میں درپیش چینلجز پر بات کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ ملک میں ہر پانچ سال بعد این ایف سی ایوارڈ کا انعقاد لازمی ہونا چاہیئے لیکن 2010کے بعد ملک میں این ایف سی ایوارڈ کا انعقاد نہیں ہوا۔ پچھلے پندرہ سالوں میں صوبے کی آبادی بڑھنے سمیت یہاں مسائل میں بھی اضافہ ہوچکا ہے اسلئے ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفرید ی این ایف سی اجلاس میں شرکت کے دوران صوبے کے مالی حقوق کے لئے توانا آواز ثابت ہونگے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے NFC ایواڈ میں حصہ دینا لازمی ہوچکا ہے، قبائلی اضلاع کو انتظامی طورپر ہمارے صوبے کا حصہ بنا دیا گیا ہے لیکن مالی طور پر ان اضلا ع سے حاصل محصولات اب بھی وفاق کو ادا ہو رہے ہیں اس لئے وفاق قبائلی اضلاع کے عوام کو ان کے مالی حقوق کی ادائیگی یقینی بنائے۔