Home Blog Page 15

خیبرپختونخوا کے وزیر بلدیات مینا خان آفریدی نے 04 دسمبر کو ہونے والے نیشنل فنانس کمیشن کے حوالے موقف اختیار کیا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس بلانا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مالی معاملات کی منصفانہ تقسیم خیبرپختونخوا حکومت کا روز اول سے مطالبہ رہا ہے۔

خیبرپختونخوا کے وزیر بلدیات مینا خان آفریدی نے 04 دسمبر کو ہونے والے نیشنل فنانس کمیشن کے حوالے موقف اختیار کیا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس بلانا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مالی معاملات کی منصفانہ تقسیم خیبرپختونخوا حکومت کا روز اول سے مطالبہ رہا ہے۔ اس متوقع اجلاس میں خیبرپختونخوا کا مقدمہ پیش کریں گے۔ خیبرپختونخوا کی تمام جماعتیں صوبے کے حقوق کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صوبوں کے درمیان مالی معاملات آئین کے مطابق منصفانہ طور پرتقسیم نہیں ہو رہے۔ ضم اضلاع کے لیے فارمولے کے مطابق طے شدہ فنڈز بھی صوبے کو نہیں فراہم کئے جا رہے۔ طے شدہ فارمولا کے مطابق، 2018 سے لے کر اب تک خیبرپختونخوا کا وفاق کے ذمہ واجب الادا رقم 1500 ارب ہیں۔این ایف سی کے حوالے سے صوبائی حکومت کی اقدامات پر بات کرتے ہوئے مینا خان آفریدی نے کہا کہ صوبائی حکومت کی ہدایات پر جامعات کی سطح پر اگہی سیمینارز، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ خصوصی پروگرامز منعقد ہوئے تاکہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لیا جائے۔ انہوں نے کہاُکہ این ایف سی ایوارڈ کو مزید بہتر بنانے کے لیے دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر مزید آپشنز بھی فورم کے سامنے رکھے جائیں گے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ اے جی این فارمولا کے تحت نٹ ہائیڈل پاور منافع کے کئی سو ارب روپے بھی وفاق کے ذمہ ہمارے بقایا جات ہیں اس پر بھی بات ہوگی۔ ضم اضلاع کے بعد خیبرپختونخوا کو دہشت گردی کے نقصانات کے ازالے کی مد میں دئیے جانے والے فنڈز میں اضافے کا مطالبہ پیش کریں گے۔

جامعہ پشاور میں این ایف سی ایوارڈ اور خیبر پختونخوا کے مالی چیلنجز کے موضوع پہ سیمینار کا انعقاد

یونیورسٹی آف پشاور کے سر صاحب زادہ عبدالقیوم میوزیم کانفرنس ہال میں پیر کے روز ایک روزہ سیمینار“این ایف سی ایوارڈ اور خیبر پختونخوا کو درپیش چیلنجز”کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اس سیمینار میں سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، ماہرینِ تعلیم اور طلبہ نے شرکت کی، جس میں صوبے کو درپیش مالی مسائل پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔یہ سیمینار سوسائٹی آف اکنامکس اینڈ ڈویلپمنٹ اسٹوڈنٹس (SEDS) نے ڈیولپمنٹ انسائٹس لیب (DIL)، اور بزنس انکیوبیشن سینٹر، یونیورسٹی آف پشاور کے باہمی تعاون سے ترتیب دیا۔سیمینار کی نظامت ڈاکٹر فہیم نواز، ڈپٹی کوآرڈی نیٹر DIL اور کوآرڈی نیٹر SEDS نے انجام دی۔یونیورسٹی آف پشاور کے وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر جوہر علی نے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور پاکستان کے مالی مستقبل کی تشکیل میں شواہد پر مبنی پالیسی مباحثوں کی اہمیت پر زور دیا۔شعب? معاشیات کے چیئرمین ڈاکٹر سجاد احمد جان نے کلیدی خطاب پیش کیا، جس میں انہوں نے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تکنیکی پہلوؤں پر جامع روشنی ڈالی، جن میں بین الصوبائی مالی تعلقات، ریونیو تقسیم کے طریقہ کار، اور صوبوں کو منتقل کی گئی مالی ذمہ داریاں شامل تھیں۔تقریب میں شریک نمایاں سیاسی رہنماؤں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے احمد کنڈی، عوامی نیشنل پارٹی کی شگفتہ ملک، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے عبدل جلیل جان، پاکستان تحریک انصاف کے کامران بنگش، پاکستان تحریک انصاف کے تیمور سلیم جھگڑا, جماعت اسلامی کے عنایت اللہ خان، اور عوامی نیشنل پارٹی کے صلاح الدین مہمند شامل تھے۔ ان سیاسی رہنماؤں نے خیبر پختونخوا کے مالی حقوق، این ایف سی ایوارڈ میں تاخیر کے اثرات، ضم شدہ اضلاع کے مالی بوجھ، اور شفاف و منصفانہ تقسیم کے فارمولے کی ضرورت پر اپنے نقطہ نظر پیش کیے۔معروف صحافی لحاظ علی، فدا عدیل، اور محمود جان بابر نے بھی سیمینار سے خطاب کیا اور میڈیا کے نقط? نظر، عوامی توقعات اور مالیاتی معاملات میں شفافیت اور جوابدہی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔اختتامی سیشن میں جامعہ پشاور کے وائس چانسلر نے تمام مقررین، منتظمین اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور صوبے کے اہم ترین مالی مسائل پر بامعنی اور بروقت مکالمہ منعقد کرنے کو سراہا۔ سیمینار سوال و جواب کے سیشن اور گروپ فوٹو کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

کے ایم یوکے زیر اہتمام خیبر پختونخوا کے این ایف سی حصے اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے مالی و انتظامی چیلنجزکے موضوع پر سیمینار کا انعقاد

خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) پشاور کے زیر اہتمام وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایت پر ”خیبر پختونخوا کے این ایف سی حصے اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے مالی و انتظامی چیلنجز“ کے موضوع پر خصوصی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں اساتذہ، ایڈمن سٹاف اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔سیمینار کے مہمانِ خصوصی اور مرکزی مقرر پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی تھے جو سابق چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور، سابق ڈائریکٹر HEARTاور حالیہ پروفیسر شعبہ? پولیٹیکل سائنس، انٹرنیشنل ریلیشنز اور پاکستان اسٹڈیز، قرطبہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ آئی ٹی پشاور ہیں۔ انہوں نے موضوع پر جامع تحقیقی و تجزیاتی گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے آئینی حقوق، وفاقی مالیاتی ڈھانچے کی کمزوریوں اور ضم شدہ اضلاع کے سنگین مسائل کو نہایت تفصیل سے بیان کیا۔انہوں نے کہا کہ آئینِ پاکستان کے تحت نیشنل فنانس کمیشن وفاقی مالیاتی نظام کی بنیاد ہے، جس کے ذریعے وفاق کے قابل تقسیم محاصل میں سے صوبوں کا حصہ طے ہوتا ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ نے آبادی، پسماندگی، صوبائی محصولات، اور آبادی کثافت جیسے معیار مقرر کیے، تاہم اب بھی 82 فیصد وزن آبادی کو دیا جاتا ہے، جس سے چھوٹے صوبے خصوصاً خیبر پختونخوا مالی لحاظ سے مسلسل محرومی کا شکار ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا کئی دہائیوں سے جنگ زدہ صوبہ ہے جہاں دہشت گردی، معاشی بدحالی اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایسے میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے وفاق کی جانب سے اعلان کردہ سالانہ 100 ارب روپے تاحال فراہم نہ کرنا صوبے کے ساتھ سنگین ناانصافی ہے۔ انہوں نے مردم شماری کے نتائج پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کی آبادی کو کم ظاہر کیے جانے سے صوبہ این ایف سی میں اپنے جائز حصے سے محروم کیا جا رہا ہے۔سیمینار میں اس بات پر زور دیا گیا کہ آرٹیکل 160 اور 161 صوبوں کے مالی حقوق کی واضح آئینی ضمانت دیتے ہیں، جس میں خالص ہائیڈل منافع اور گیس و پٹرولیم اور دیگر قدرتی معدنیات کی رائلٹی شامل ہیں، مگر خیبر پختونخوا تاحال اس کے ثمرات پوری طرح حاصل نہیں کرسکا۔ آرٹیکل 172(3) کے مطابق قدرتی وسائل کی ملکیت وفاق اور صوبے کی مشترکہ ہوتی ہے، لہٰذا وسائل کی پیداوار اور آمدن کے شفاف اعداد و شمار صوبوں سے نہیں چھپائے جانے چاہئیں۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی نے کہا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کی فوری تشکیل، مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کے اجلاسوں کی باقاعدگی، اور قومی سطح پر بہتر بین الحکومتی ہم آہنگی ناگزیر ہو چکی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا خیرات نہیں بلکہ اپنا آئینی حصہ مانگتا ہے، اور جب تک منصفانہ وسائل کی تقسیم یقینی نہیں بنائی جاتی قومی یکجہتی اور صوبائی اعتماد ایک چیلنج بنا رہے گا۔سیمینار کے اختتام پر شرکاء نے اس امید کا اظہار کیا کہ خیبر پختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کو ان کے جائز حقوق کی خاطر وفاق اور صوبے باہمی اعتماد، آئینی تقاضوں اور شفاف پالیسی ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کیپر امن حل کی طرف بڑھیں گے۔

یو ای ٹی مردان میں این ایف سی شیئر اور خیبر پختونخوا کے مالی چیلنجز پر آگاہی سیمینار

 یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) مردان میں “این ایف سی شیئر اور خیبر پختونخوا کو درپیش چیلنجز” کے موضوع پر ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار میں ای جرگہ کے بانی اور گورننس و ادارہ جاتی اصلاحات کے ماہر نور محمد اور یونیورسٹی آف ملاکنڈ کے چیئرمین شعبہ سیاسیات پروفیسر ڈاکٹر مراد علی نے خصوصی لکچرز دئیے۔
اس سیمینار کا مقصد قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کی اہمیت اجاگر کرنا اور خصوصاً سابق قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کو درپیش مالی و انتظامی چیلنجز پر روشنی ڈالنا تھا۔ مقررین نے مالی منصوبہ بندی، وسائل کی تقسیم، حکومتی ڈھانچوں اور خطے کی پائیدار ترقی کی حکمتِ عملیوں پر تفصیلی پریزنٹیشنز دیں۔
طلبہ، اساتذہ اور محققین نے بھرپور حصہ لیتے ہوئے بین الصوبائی مالی عدم مساوات، ترقیاتی ترجیحات اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کی فوری ضرورت کے حوالے سے مفید بحث میں حصہ لیا۔
مقررین نے ادارہ جاتی صلاحیت میں اضافے، بہتر حکمرانی کے نظام اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی اپنانے پر زور دیا تاکہ صوبے کو درپیش سماجی و اقتصادی مسائل کا بہتر حل نکالا جا سکے۔
آخر میں یونیورسٹی انتظامیہ نے مہمان مقررین کے قیمتی خیالات کو سراہا اور طلبہ میں گورننس اور پبلک پالیسی سے متعلق آگاہی بڑھانے کے لیے مستقبل میں بھی ایسے سیشنز کے انعقاد کے عزم کا اظہار کیا۔

ویمن یونیورسٹی مردان میں خیبر پختونخوا کے این ایف سی شیئر اور ضم شدہ اضلاع کے مالی مسائل پر سیمینار کا انعقاد

ویمن یونیورسٹی مردان نے وزیر اعلیٰ/چانسلر حکومت خیبر پختونخوا کی ہدایات کی روشنی میں “این ایف سی شیئر اور چیلنجز آف خیبر پختونخوا” کے موضوع پر ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد مین ہال میں کیا۔ اس سیمینار کا مقصد صوبے کی آئینی حیثیت، این ایف سی ایوارڈ میں اس کے جائز حق، ضم شدہ اضلاع کی مالی محرومی، اور انتظامی و مالی انضمام کے درمیان موجود خلا سے متعلق آگاہی فراہم کرنا تھا۔

تقریب کی صدارت وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے سابق مشیر برائے خزانہ و توانائی حمایت اللہ خان نے کی جنہوں نے اپنے وسیع تجربے کی
بنیاد پر صوبے کے مالی حقوق، این ایف سی میں صوبے کے جائز مطالبات، ضم شدہ اضلاع کی تاریخِ محرومی، اور مالی انضمام میں تاخیر کے سبب ترقیاتی و انتظامی مسائل پر جامع روشنی ڈالی۔ انہوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی مالی خودمختاری، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مساوی وفاقیت کے تناظر میں درپیش چیلنجز کی اہمیت بھی اجاگر کی۔
وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی مردان، پروفیسر ڈاکٹر رضیہ سلطانہ نے اپنے خطاب میں آئندہ 4 دسمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے این ایف سی اجلاس کے تناظر میں صوبے کے مالی مسائل سے متعلق طلبہ، اساتذہ اور علمی حلقوں کو باخبر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ویمن یونیورسٹی مردان قومی اور صوبائی پالیسی معاملات پر تحقیقی و علمی مباحثے کو فروغ دینے میں اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرتی رہے گی۔ سیمینار میں مختلف شعبہ جات کے اساتذہ، انتظامی عملے اور بڑی تعداد میں طلبہ نے شرکت کی۔ شرکاء نے این ایف سی شیئر کی عدم فراہمی کے باعث پیدا ہونے والے ترقیاتی مسائل، ضم شدہ اضلاع کے مالی حقوق اور صوبے کو درپیش مالی مشکلات پر مفصل گفتگو میں حصہ لیا۔ ویمن یونیورسٹی مردان صوبے اور ملک کے اہم سماجی و معاشی مسائل پر تحقیق اور مباحثے کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔

جامعہ باچا خان میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خصوصی ہدایت پر این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے ایک روزہ آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا

جامعہ باچا خان میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خصوصی ہدایت پر این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے ایک روزہ آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سابق چیف سیکرٹری فنانس سید سعید بادشاہ بخاری نے بطور مہمان حصوصی شرکت کی۔ وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خان عالم نے مہمان مقرر کا خیر مقدم کیا۔
اس موقع پر طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے اہم موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کی اور سوال وجواب کے سیشن میں مقررین سے صوبے کے حقوق سے متعلق مختلف سوالات پوچھے۔
آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خان عالم اور ڈاکٹر سید سعید بخاری کا کہنا تھا کہ آج کے سیمینار کا بنیادی مقصد طلباء و طالبات کو صوبے کے مالی حقوق سمیت صوبے کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے آگاہ کرنا ہے۔این ایف سی ایوارڈ کے شفاف انعقاد سے صوبے کو مالی خو دمختیاری ملی گی جبکہ وفاق سے صوبے کو ملنے والے فنڈز تعلیم اور صحت سمیت دیگر شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جا سکے گے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ خیبر پختونخوا کو اس کے آبادیاتی اور جغرافیائی ضروریات کے مطابق حصہ ملے۔ مقررین کے مطابق بہتر مالی انتظام اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے، صوبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور علاقائی استحکام اور سماجی و اقتصادی ترقی میں مدد ملتی ہیں اس لئے قدرتی وسائل پر رائلٹی صوبے کے آمدن کا بہتر ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے انعقاد میں درپیش چینلجز پر بات کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ ملک میں ہر پانچ سال بعد این ایف سی ایوارڈ کا انعقاد لازمی ہونا چاہیئے لیکن 2010کے بعد ملک میں این ایف سی ایوارڈ کا انعقاد نہیں ہوا۔ پچھلے پندرہ سالوں میں صوبے کی آبادی بڑھنے سمیت یہاں مسائل میں بھی اضافہ ہوچکا ہے اسلئے ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفرید ی این ایف سی اجلاس میں شرکت کے دوران صوبے کے مالی حقوق کے لئے توانا آواز ثابت ہونگے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے NFC ایواڈ میں حصہ دینا لازمی ہوچکا ہے، قبائلی اضلاع کو انتظامی طورپر ہمارے صوبے کا حصہ بنا دیا گیا ہے لیکن مالی طور پر ان اضلا ع سے حاصل محصولات اب بھی وفاق کو ادا ہو رہے ہیں اس لئے وفاق قبائلی اضلاع کے عوام کو ان کے مالی حقوق کی ادائیگی یقینی بنائے۔

خیبر پختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کے لیے منصفانہ این ایف سی حصے کا مطالبہ۔ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں آگاہی سیمینار کا انعقاد

انسٹی ٹیوٹ آف بزنس اینڈ لیڈر شپ، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پیر کے روز “این ایف سی اور خیبر پختونخوا کا جائز حق: ضم شدہ اضلاع اور ترقی کا راستہ” کے عنوان سے ایک آگاہی سیمینار منعقد کیا گیا۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر عامر رضا نے موضوع پر لکچر دیا۔ سیمینار کو 13 کیمپسز اور منسلک کالجز کے طلبہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے دیکھا اور سنا۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد نے مہمان مقرر کا استقبال کرتے ہوئے موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور امید ظاہر کی کہ طلبہ اس علمی نشست سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ڈائریکٹر کیرئیر ڈیویلپمنٹ سنٹر ڈاکٹر بلال نے مہمان مقرر کا تعارف کرایا اور سیشن کو ماڈریٹ کیا۔
ڈاکٹر عامر رضا نے این ایف سی کے نظام اور اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وفاقی حکومت مختلف ٹیکسز—جیسے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس—سے جمع شدہ وسائل کو صوبوں میں تقسیم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم لیوی اور گیس لیوی تقسیم کے قابل وسائل میں شامل نہیں جبکہ دیگر بیشتر محصولات قابل تقسیم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا موجودہ مالیاتی ڈھانچہ 7ویں این ایف سی ایوارڈ (2010) کے تحت چل رہا ہے جس نے وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کو 43:57 پر مقرر کیا۔ اس سے قبل صرف آبادی ہی بنیاد تھی، لیکن 7ویں ایوارڈ میں متعدد عوامل شامل کیے گئے جن میں 82 فیصد آبادی، 10.3 فیصد غربت، 3 فیصد ٹیکس وصولی اور باقی الٹا آبادی کثافت شامل ہیں۔
پروفیسر عامر رضا نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو 15 سے 18 محکمے منتقل کیے گئے، اس لیے نئے این ایف سی ایوارڈ کی اشد ضرورت ہے تاکہ صوبوں کو ان نئے محکموں کے لیے درکار وسائل فراہم کیے جا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعلیٰ تعلیم سے متعلق کچھ ابہام ابھی بھی موجود ہیں، تاہم کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) نے 2011 میں فیصلہ کیا تھا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کے اعلان تک ایچ ای سی وفاق ہی کے ماتحت رہے گی۔
سیمینار میں ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا) کا مسئلہ بھی نمایاں طور پر زیر بحث آیا۔ مقرر نے بتایا کہ اگرچہ چھ ملین آبادی پر مشتمل علاقے خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں، لیکن وفاق کی جانب سے صوبے کو ان کا جائز مالی حصہ نہیں مل رہا۔ وفاقی حکومت نے ضم شدہ علاقوں کی ترقی کے لیے سالانہ 100 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا جو اب تک پورا نہیں ہوا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ وسائل کی کمی کے باعث ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی عمل سست روی کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں شدت پسندی، کمزور امن و امان اور تعلیم و صحت کی عدم دستیابی جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ “اصل مسئلہ ریاست اور معاشرے کے درمیان بڑھتا ہوا عدم اعتماد ہے،” انہوں نے کہا، اور اس بات پر زور دیا کہ اگر وفاقی اکائیوں کے ساتھ انصاف اور دیانتداری سے پیش آیا جائے تو وفاق مضبوط ہوگا۔
مزید برآں، انہوں نے کہا کہ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام انتظامی اور سیاسی دونوں پہلوؤں پر مشتمل تھا اور اب ان علاقوں کے عوام کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی موجود ہے۔ “انضمام کا مقصد صرف جغرافیائی یا انتظامی شمولیت نہیں تھا، بلکہ ان علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانا تھا،” انہوں نے کہا۔
اختتام پر طلبہ نے سوالات کیے جن کے ڈاکٹر عامر رضا نے تفصیلی جوابات دیے۔ انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ باخبر شہری بنیں اور قومی مباحثے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Shaheed Benazir Bhutto Women University Organizes Seminar on NFC

Shaheed Benazir Bhutto Women University, Peshawar (SBBWUP) organized an awareness seminar on “NFC Share and Challenges Faced by Khyber Pakhtunkhwa” on Monday December 01, 2025. The event brought together distinguished academics and policy experts to deliberate on the pressing issues surrounding the National Finance Commission (NFC) and its implications for the province. The event witnessed remarkable participation from faculty members and students of University and 12 affiliated colleges of SBBWUP.

The Keynote speakers included Prof. Dr. Syed Hussain Shaheed Soherwordi, Chairman, Department of International Relations, University of Peshawar Prof. Dr. Zilakat Malik, Department of Economics, University of Peshawar and Dr. Sumaira Gul, Department of Political Science, Shaheed Benazir Bhutto Women University, Peshawar.

The speakers emphasized the importance of equitable distribution of financial resources under the NFC Award. Prof. Dr. Soherwordi highlighted the historical context of the NFC and its role in strengthening federal-provincial relations. Prof. Dr. Zilakat Malik discussed the economic challenges faced by Khyber Pakhtunkhwa, including resource allocation and fiscal sustainability. Dr. Sumaira Gul highlighted political dimensions of the NFC debate, stressing the need for inclusive policymaking to address provincial concerns.

The seminar provided students and faculty with valuable insights into the complexities of fiscal federalism in Pakistan. It underscored the necessity of informed dialogue and collaborative efforts to ensure that provinces like Khyber Pakhtunkhwa receive a fair share in national financial planning. The session concluded with the vote of thanks given by Dr Zarmina Baloch, Assistant Professor Department of Political Science, SBBWUP.

خیبر پختونخوا اسمبلی سیکرٹریٹ میں سپیکر بابر سلیم سواتی کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں این ایف سی ایوارڈ اور صوبے کے مالی حقوق کے حوالے سے مجموعی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا

خیبر پختونخوا اسمبلی سیکرٹریٹ میں سپیکر بابر سلیم سواتی کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں این ایف سی ایوارڈ اور صوبے کے مالی حقوق کے حوالے سے مجموعی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں مختلف جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز، اراکینِ اسمبلی اور محکمہ خزانہ و دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی. اجلاس کے دوران شرکاء کو این ایف سی ایوارڈ سے متعلق موجودہ پیش رفت، صوبے کو درپیش مالی مشکلات، اور وفاقی سطح پر وسائل کی تقسیم سے متعلق اٹھنے والے اعتراضات پر بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر شرکاء نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ صوبے کے مالی حقوق، خصوصاً ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی و انتظامی اخراجات سے متعلق اہم معاملات مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں، جس کا براہ راست اثر صوبے کی گورننس، امن و امان اور ترقیاتی عمل پر پڑ رہا ہے۔سپیکر بابر سلیم سواتی نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت اور صوبائی اسمبلی صوبے کے عوام کے مالی و آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر یکسو ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے صوبے کے جائز مؤقف کو مضبوطی سے ہر فورم پر پیش کیا جائے گا اور کسی بھی صورت صوبے کے ساتھ ہونے والی ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی۔اجلاس کے اختتام پر سپیکر نے کہا کہ خیبر پختونخوا اپنی مشکلات اور ضروریات کے تناظر میں ایک مضبوط کیس رکھتا ہے، اور صوبائی حکومت اس معاملے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ تمام وسائل بروئے کار لا کر اپنے عوام کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑے گی۔

چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ کی زیر صدارت گورننس امور پر ہفتہ وار اجلاس

چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ کی زیر صدارت گورننس امور پر ہفتہ وار اجلاس منعقد ہوا جس میں محکمو ں کے سیکرٹریز اور افسران نے شرکت کی،جبکہ ڈپٹی کمشنرز اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔اجلاس میں بتایا گیا کہ عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے حکومت خیبرپختونخوا کے گڈ گورننس اقدامات جاری ہیں۔ صوبائی حکومت کی ہدایات پر صوبے بھر میں ناجائز تجاوزات کے خلاف بلا تفریق کاروائیوں میں اب تک 1289 کنال اراضی واگزار کروائی گئی ہے۔ دارالحکومت پشاور کی عظمت رفتہ کی بحالی اور خوبصورتی کیلئے فلائی اوورز کی بہتری، لائٹس کی تنصیب، کرب سٹونز کی تبدیلی، گرین بیلٹس کی بحالی، پیڈیسٹرین برجز کی خوبصورتی پر کام جاری ہے جبکہ سیاحت کی ترقی کے لئے اقدامات کے ساتھ 10 بی آر ٹی فیڈر بسز اور 7 بی آر ٹی اسٹیشنز کی تزئین و آرائش بھی کی جارہی ہے۔ اسی طرح سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے خیبرپختونخوا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کے قیام کے لیے قانون سازی اور ماحول دوست ای وی رکشہ متعارف کرانے پر پیشرفت ہوئی ہے۔خیبرپختونخوا میں مربوط شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے پہلے مرحلے میں 20 اضلاع کی ماسٹر پلاننگ مکمل کرلی گئی ہے جبکہ اہم سیاحتی مقامات گلیات، کاغان، ناران، بٹہ کنڈی، بحرین، مدین، منکیال، کالام، مہوڈند اور کمراٹ کی ماسٹر پلاننگ بھی جاری ہے۔اس کے علاوہ دوسرے مرحلے میں مزید 12 اضلاع کی ماسٹر پلاننگ پر بھی کام جاری ہے۔اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا میں خسرہ و روبیلا سے بچاو کی قومی ویکسینیشن مہم کامیابی کیساتھ مکمل کرلی گئی ہے۔