Home Blog Page 16

یو ای ٹی مردان میں این ایف سی شیئر اور خیبر پختونخوا کے مالی چیلنجز پر آگاہی سیمینار

 یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) مردان میں “این ایف سی شیئر اور خیبر پختونخوا کو درپیش چیلنجز” کے موضوع پر ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار میں ای جرگہ کے بانی اور گورننس و ادارہ جاتی اصلاحات کے ماہر نور محمد اور یونیورسٹی آف ملاکنڈ کے چیئرمین شعبہ سیاسیات پروفیسر ڈاکٹر مراد علی نے خصوصی لکچرز دئیے۔
اس سیمینار کا مقصد قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کی اہمیت اجاگر کرنا اور خصوصاً سابق قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کو درپیش مالی و انتظامی چیلنجز پر روشنی ڈالنا تھا۔ مقررین نے مالی منصوبہ بندی، وسائل کی تقسیم، حکومتی ڈھانچوں اور خطے کی پائیدار ترقی کی حکمتِ عملیوں پر تفصیلی پریزنٹیشنز دیں۔
طلبہ، اساتذہ اور محققین نے بھرپور حصہ لیتے ہوئے بین الصوبائی مالی عدم مساوات، ترقیاتی ترجیحات اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کی فوری ضرورت کے حوالے سے مفید بحث میں حصہ لیا۔
مقررین نے ادارہ جاتی صلاحیت میں اضافے، بہتر حکمرانی کے نظام اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی اپنانے پر زور دیا تاکہ صوبے کو درپیش سماجی و اقتصادی مسائل کا بہتر حل نکالا جا سکے۔
آخر میں یونیورسٹی انتظامیہ نے مہمان مقررین کے قیمتی خیالات کو سراہا اور طلبہ میں گورننس اور پبلک پالیسی سے متعلق آگاہی بڑھانے کے لیے مستقبل میں بھی ایسے سیشنز کے انعقاد کے عزم کا اظہار کیا۔

ویمن یونیورسٹی مردان میں خیبر پختونخوا کے این ایف سی شیئر اور ضم شدہ اضلاع کے مالی مسائل پر سیمینار کا انعقاد

ویمن یونیورسٹی مردان نے وزیر اعلیٰ/چانسلر حکومت خیبر پختونخوا کی ہدایات کی روشنی میں “این ایف سی شیئر اور چیلنجز آف خیبر پختونخوا” کے موضوع پر ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد مین ہال میں کیا۔ اس سیمینار کا مقصد صوبے کی آئینی حیثیت، این ایف سی ایوارڈ میں اس کے جائز حق، ضم شدہ اضلاع کی مالی محرومی، اور انتظامی و مالی انضمام کے درمیان موجود خلا سے متعلق آگاہی فراہم کرنا تھا۔

تقریب کی صدارت وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے سابق مشیر برائے خزانہ و توانائی حمایت اللہ خان نے کی جنہوں نے اپنے وسیع تجربے کی
بنیاد پر صوبے کے مالی حقوق، این ایف سی میں صوبے کے جائز مطالبات، ضم شدہ اضلاع کی تاریخِ محرومی، اور مالی انضمام میں تاخیر کے سبب ترقیاتی و انتظامی مسائل پر جامع روشنی ڈالی۔ انہوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی مالی خودمختاری، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مساوی وفاقیت کے تناظر میں درپیش چیلنجز کی اہمیت بھی اجاگر کی۔
وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی مردان، پروفیسر ڈاکٹر رضیہ سلطانہ نے اپنے خطاب میں آئندہ 4 دسمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے این ایف سی اجلاس کے تناظر میں صوبے کے مالی مسائل سے متعلق طلبہ، اساتذہ اور علمی حلقوں کو باخبر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ویمن یونیورسٹی مردان قومی اور صوبائی پالیسی معاملات پر تحقیقی و علمی مباحثے کو فروغ دینے میں اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرتی رہے گی۔ سیمینار میں مختلف شعبہ جات کے اساتذہ، انتظامی عملے اور بڑی تعداد میں طلبہ نے شرکت کی۔ شرکاء نے این ایف سی شیئر کی عدم فراہمی کے باعث پیدا ہونے والے ترقیاتی مسائل، ضم شدہ اضلاع کے مالی حقوق اور صوبے کو درپیش مالی مشکلات پر مفصل گفتگو میں حصہ لیا۔ ویمن یونیورسٹی مردان صوبے اور ملک کے اہم سماجی و معاشی مسائل پر تحقیق اور مباحثے کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔

جامعہ باچا خان میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خصوصی ہدایت پر این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے ایک روزہ آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا

جامعہ باچا خان میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خصوصی ہدایت پر این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے ایک روزہ آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سابق چیف سیکرٹری فنانس سید سعید بادشاہ بخاری نے بطور مہمان حصوصی شرکت کی۔ وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خان عالم نے مہمان مقرر کا خیر مقدم کیا۔
اس موقع پر طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے اہم موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کی اور سوال وجواب کے سیشن میں مقررین سے صوبے کے حقوق سے متعلق مختلف سوالات پوچھے۔
آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خان عالم اور ڈاکٹر سید سعید بخاری کا کہنا تھا کہ آج کے سیمینار کا بنیادی مقصد طلباء و طالبات کو صوبے کے مالی حقوق سمیت صوبے کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے آگاہ کرنا ہے۔این ایف سی ایوارڈ کے شفاف انعقاد سے صوبے کو مالی خو دمختیاری ملی گی جبکہ وفاق سے صوبے کو ملنے والے فنڈز تعلیم اور صحت سمیت دیگر شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جا سکے گے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ خیبر پختونخوا کو اس کے آبادیاتی اور جغرافیائی ضروریات کے مطابق حصہ ملے۔ مقررین کے مطابق بہتر مالی انتظام اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے، صوبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور علاقائی استحکام اور سماجی و اقتصادی ترقی میں مدد ملتی ہیں اس لئے قدرتی وسائل پر رائلٹی صوبے کے آمدن کا بہتر ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے انعقاد میں درپیش چینلجز پر بات کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ ملک میں ہر پانچ سال بعد این ایف سی ایوارڈ کا انعقاد لازمی ہونا چاہیئے لیکن 2010کے بعد ملک میں این ایف سی ایوارڈ کا انعقاد نہیں ہوا۔ پچھلے پندرہ سالوں میں صوبے کی آبادی بڑھنے سمیت یہاں مسائل میں بھی اضافہ ہوچکا ہے اسلئے ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفرید ی این ایف سی اجلاس میں شرکت کے دوران صوبے کے مالی حقوق کے لئے توانا آواز ثابت ہونگے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے NFC ایواڈ میں حصہ دینا لازمی ہوچکا ہے، قبائلی اضلاع کو انتظامی طورپر ہمارے صوبے کا حصہ بنا دیا گیا ہے لیکن مالی طور پر ان اضلا ع سے حاصل محصولات اب بھی وفاق کو ادا ہو رہے ہیں اس لئے وفاق قبائلی اضلاع کے عوام کو ان کے مالی حقوق کی ادائیگی یقینی بنائے۔

خیبر پختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کے لیے منصفانہ این ایف سی حصے کا مطالبہ۔ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں آگاہی سیمینار کا انعقاد

انسٹی ٹیوٹ آف بزنس اینڈ لیڈر شپ، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پیر کے روز “این ایف سی اور خیبر پختونخوا کا جائز حق: ضم شدہ اضلاع اور ترقی کا راستہ” کے عنوان سے ایک آگاہی سیمینار منعقد کیا گیا۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر عامر رضا نے موضوع پر لکچر دیا۔ سیمینار کو 13 کیمپسز اور منسلک کالجز کے طلبہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے دیکھا اور سنا۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد نے مہمان مقرر کا استقبال کرتے ہوئے موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور امید ظاہر کی کہ طلبہ اس علمی نشست سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ڈائریکٹر کیرئیر ڈیویلپمنٹ سنٹر ڈاکٹر بلال نے مہمان مقرر کا تعارف کرایا اور سیشن کو ماڈریٹ کیا۔
ڈاکٹر عامر رضا نے این ایف سی کے نظام اور اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وفاقی حکومت مختلف ٹیکسز—جیسے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس—سے جمع شدہ وسائل کو صوبوں میں تقسیم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم لیوی اور گیس لیوی تقسیم کے قابل وسائل میں شامل نہیں جبکہ دیگر بیشتر محصولات قابل تقسیم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا موجودہ مالیاتی ڈھانچہ 7ویں این ایف سی ایوارڈ (2010) کے تحت چل رہا ہے جس نے وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کو 43:57 پر مقرر کیا۔ اس سے قبل صرف آبادی ہی بنیاد تھی، لیکن 7ویں ایوارڈ میں متعدد عوامل شامل کیے گئے جن میں 82 فیصد آبادی، 10.3 فیصد غربت، 3 فیصد ٹیکس وصولی اور باقی الٹا آبادی کثافت شامل ہیں۔
پروفیسر عامر رضا نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو 15 سے 18 محکمے منتقل کیے گئے، اس لیے نئے این ایف سی ایوارڈ کی اشد ضرورت ہے تاکہ صوبوں کو ان نئے محکموں کے لیے درکار وسائل فراہم کیے جا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعلیٰ تعلیم سے متعلق کچھ ابہام ابھی بھی موجود ہیں، تاہم کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) نے 2011 میں فیصلہ کیا تھا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کے اعلان تک ایچ ای سی وفاق ہی کے ماتحت رہے گی۔
سیمینار میں ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا) کا مسئلہ بھی نمایاں طور پر زیر بحث آیا۔ مقرر نے بتایا کہ اگرچہ چھ ملین آبادی پر مشتمل علاقے خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں، لیکن وفاق کی جانب سے صوبے کو ان کا جائز مالی حصہ نہیں مل رہا۔ وفاقی حکومت نے ضم شدہ علاقوں کی ترقی کے لیے سالانہ 100 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا جو اب تک پورا نہیں ہوا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ وسائل کی کمی کے باعث ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی عمل سست روی کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں شدت پسندی، کمزور امن و امان اور تعلیم و صحت کی عدم دستیابی جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ “اصل مسئلہ ریاست اور معاشرے کے درمیان بڑھتا ہوا عدم اعتماد ہے،” انہوں نے کہا، اور اس بات پر زور دیا کہ اگر وفاقی اکائیوں کے ساتھ انصاف اور دیانتداری سے پیش آیا جائے تو وفاق مضبوط ہوگا۔
مزید برآں، انہوں نے کہا کہ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام انتظامی اور سیاسی دونوں پہلوؤں پر مشتمل تھا اور اب ان علاقوں کے عوام کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی موجود ہے۔ “انضمام کا مقصد صرف جغرافیائی یا انتظامی شمولیت نہیں تھا، بلکہ ان علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانا تھا،” انہوں نے کہا۔
اختتام پر طلبہ نے سوالات کیے جن کے ڈاکٹر عامر رضا نے تفصیلی جوابات دیے۔ انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ باخبر شہری بنیں اور قومی مباحثے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Shaheed Benazir Bhutto Women University Organizes Seminar on NFC

Shaheed Benazir Bhutto Women University, Peshawar (SBBWUP) organized an awareness seminar on “NFC Share and Challenges Faced by Khyber Pakhtunkhwa” on Monday December 01, 2025. The event brought together distinguished academics and policy experts to deliberate on the pressing issues surrounding the National Finance Commission (NFC) and its implications for the province. The event witnessed remarkable participation from faculty members and students of University and 12 affiliated colleges of SBBWUP.

The Keynote speakers included Prof. Dr. Syed Hussain Shaheed Soherwordi, Chairman, Department of International Relations, University of Peshawar Prof. Dr. Zilakat Malik, Department of Economics, University of Peshawar and Dr. Sumaira Gul, Department of Political Science, Shaheed Benazir Bhutto Women University, Peshawar.

The speakers emphasized the importance of equitable distribution of financial resources under the NFC Award. Prof. Dr. Soherwordi highlighted the historical context of the NFC and its role in strengthening federal-provincial relations. Prof. Dr. Zilakat Malik discussed the economic challenges faced by Khyber Pakhtunkhwa, including resource allocation and fiscal sustainability. Dr. Sumaira Gul highlighted political dimensions of the NFC debate, stressing the need for inclusive policymaking to address provincial concerns.

The seminar provided students and faculty with valuable insights into the complexities of fiscal federalism in Pakistan. It underscored the necessity of informed dialogue and collaborative efforts to ensure that provinces like Khyber Pakhtunkhwa receive a fair share in national financial planning. The session concluded with the vote of thanks given by Dr Zarmina Baloch, Assistant Professor Department of Political Science, SBBWUP.

خیبر پختونخوا اسمبلی سیکرٹریٹ میں سپیکر بابر سلیم سواتی کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں این ایف سی ایوارڈ اور صوبے کے مالی حقوق کے حوالے سے مجموعی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا

خیبر پختونخوا اسمبلی سیکرٹریٹ میں سپیکر بابر سلیم سواتی کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں این ایف سی ایوارڈ اور صوبے کے مالی حقوق کے حوالے سے مجموعی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں مختلف جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز، اراکینِ اسمبلی اور محکمہ خزانہ و دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی. اجلاس کے دوران شرکاء کو این ایف سی ایوارڈ سے متعلق موجودہ پیش رفت، صوبے کو درپیش مالی مشکلات، اور وفاقی سطح پر وسائل کی تقسیم سے متعلق اٹھنے والے اعتراضات پر بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر شرکاء نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ صوبے کے مالی حقوق، خصوصاً ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی و انتظامی اخراجات سے متعلق اہم معاملات مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں، جس کا براہ راست اثر صوبے کی گورننس، امن و امان اور ترقیاتی عمل پر پڑ رہا ہے۔سپیکر بابر سلیم سواتی نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت اور صوبائی اسمبلی صوبے کے عوام کے مالی و آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر یکسو ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے صوبے کے جائز مؤقف کو مضبوطی سے ہر فورم پر پیش کیا جائے گا اور کسی بھی صورت صوبے کے ساتھ ہونے والی ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی۔اجلاس کے اختتام پر سپیکر نے کہا کہ خیبر پختونخوا اپنی مشکلات اور ضروریات کے تناظر میں ایک مضبوط کیس رکھتا ہے، اور صوبائی حکومت اس معاملے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ تمام وسائل بروئے کار لا کر اپنے عوام کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑے گی۔

چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ کی زیر صدارت گورننس امور پر ہفتہ وار اجلاس

چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ کی زیر صدارت گورننس امور پر ہفتہ وار اجلاس منعقد ہوا جس میں محکمو ں کے سیکرٹریز اور افسران نے شرکت کی،جبکہ ڈپٹی کمشنرز اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔اجلاس میں بتایا گیا کہ عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے حکومت خیبرپختونخوا کے گڈ گورننس اقدامات جاری ہیں۔ صوبائی حکومت کی ہدایات پر صوبے بھر میں ناجائز تجاوزات کے خلاف بلا تفریق کاروائیوں میں اب تک 1289 کنال اراضی واگزار کروائی گئی ہے۔ دارالحکومت پشاور کی عظمت رفتہ کی بحالی اور خوبصورتی کیلئے فلائی اوورز کی بہتری، لائٹس کی تنصیب، کرب سٹونز کی تبدیلی، گرین بیلٹس کی بحالی، پیڈیسٹرین برجز کی خوبصورتی پر کام جاری ہے جبکہ سیاحت کی ترقی کے لئے اقدامات کے ساتھ 10 بی آر ٹی فیڈر بسز اور 7 بی آر ٹی اسٹیشنز کی تزئین و آرائش بھی کی جارہی ہے۔ اسی طرح سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے خیبرپختونخوا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کے قیام کے لیے قانون سازی اور ماحول دوست ای وی رکشہ متعارف کرانے پر پیشرفت ہوئی ہے۔خیبرپختونخوا میں مربوط شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے پہلے مرحلے میں 20 اضلاع کی ماسٹر پلاننگ مکمل کرلی گئی ہے جبکہ اہم سیاحتی مقامات گلیات، کاغان، ناران، بٹہ کنڈی، بحرین، مدین، منکیال، کالام، مہوڈند اور کمراٹ کی ماسٹر پلاننگ بھی جاری ہے۔اس کے علاوہ دوسرے مرحلے میں مزید 12 اضلاع کی ماسٹر پلاننگ پر بھی کام جاری ہے۔اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا میں خسرہ و روبیلا سے بچاو کی قومی ویکسینیشن مہم کامیابی کیساتھ مکمل کرلی گئی ہے۔

Provincial Minister for Health, Khaliq-ur-Rehman, presided over an important meeting with the representatives of the Insaf Doctors Forum to discuss matters related to the improvement of healthcare services and the role of young doctors in strengthening the health system.

Provincial Minister for Health, Khaliq-ur-Rehman, presided over an important meeting with the representatives of the Insaf Doctors Forum to discuss matters related to the improvement of healthcare services and the role of young doctors in strengthening the health system. The meeting was held in a cordial and constructive environment.

During the meeting, the Provincial Minister appreciated the role of the Insaf Doctors Forum and stated that it is a positive and effective platform which can contribute significantly towards bringing meaningful and sustainable improvements in the healthcare delivery system of the province. He reaffirmed that the Health Department is fully committed and serious about moving forward with collective efforts, setting aside all personal or group interests for the greater good of public health.

The Minister emphasized that the doctors associated with the forum are young, energetic, and highly talented, and their skills, dedication, and innovative ideas are vital for the growth and improvement of the health sector. He added that the health system can only progress when all stakeholders work together with unity, professionalism, and a sincere sense of responsibility.

He further stated that the government is determined to utilize the energies and capabilities of young doctors for institutional development and service delivery. The Minister highlighted that constructive criticism, identification of gaps, and positive feedback are essential for reform and strengthening of the healthcare system.

The representatives of the Insaf Doctors Forum assured the Provincial Minister of their full cooperation and support in making the health system more efficient, transparent, and responsive to public needs. They reaffirmed their commitment to play a proactive role in identifying shortcomings, proposing practical solutions, and contributing positively towards the improvement of healthcare services across the province.

The Provincial Minister, in his concluding remarks, assured the forum of complete support and cooperation from the Health Department. He stated that the government values the input of young professionals and will continue to engage with all stakeholders to ensure better healthcare facilities for the people of Khyber Pakhtunkhwa.

سابقہ فاٹا کا انتظامی انضمام ہوگیا مگر مالیاتی انضمام ابھی تک نہ ہو سکا: شفیع جان

وزیراعلی خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقات عامہ شفیع جان نے کہا ہے کہ نوجوان وزیراعلی محمد سہیل آفریدی کی ہدایت پر صوبے کے وسائل، این ایف سی شیئرز اور مسائل کے حل پر عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے کے لئے خیبرپختونخوا کے تمام جامعات میں سیمینارز منعقد کیے گئے ہیں۔ ان سیمینارز کا مقصد طلباء و طالبات کو صوبے کے وسائل، این ایف سی شیئرز، مسائل و حل سے متعلق آگاہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان وزیراعلیٰ محمد سہیل آفریدی این ایف سی پر تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لینگے۔کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کوہاٹ میں این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے معاون خصوصی شفیع جان نے کہا کہ سابقہ فاٹا کا انتظامی انضمام ہوگیا مگر مالیاتی انضمام ابھی تک نہ ہو سکا جو صوبے کے ساتھ ناانصافی ہے۔ 2018 سے 2025 تک کا جائز این ایف سی شیئر نہیں دیا جا رہا۔ اس طرح سابقہ فاٹا کے انضمام کے باوجود این ایف سی کے ہمارے شیئر میں اضافہ نہیں کیا گیا، خیبر پختونخوا اور ضم اضلاع کی ضروریات کیلئے این ایف سی میں عبوری ایڈجسٹمنٹ وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح ضم اضلاع کی آبادی و رقبہ شامل کرکے صوبے کا حصہ دوبارہ مقرر کیا جائے۔ این ایف سی شیئر اس وقت عملاً ساڑھے تین صوبوں میں تقسیم ہو رہا ہے جو آئین کے سراسر خلاف ہے۔ دوسری جانب این ایف سی ایوارڈ کے اربوں روپے کے بقایاجات بھی صوبے کو ادا نہیں کیے جا رہے جو صوبے کے ساتھ نا انصافی ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے 1335 ارب روپے کے بقایاجات ادا کئے جائیں گے تاکہ ضم اضلاع کی پسماندگی دور کی جاسکے۔انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کو مطلوبہ مالی وسائل نہیں دیے گئے۔ مستقبل میں ضم اضلاع کا حصہ آبادی، غربت اور دیگر اشاریوں کی بنیاد پر الگ نکالا جائے اور خیبر پختونخوا کو دئے جائیں۔سابقہ فاٹا کو بلوچستان و دیگر صوبوں کے مقابلے میں مسلسل کم فنڈز ملے۔ اسطرح دہشتگردی کے مد میں ملنے والا ایک فیصد حصہ بڑھا کر تین فیصد کیا جائے۔ مالی تاخیر سے ضم اضلاع میں امن و امان متاثر ہو رہا ہے۔ شفیع جان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ تمام مکاتب فکر صوبے کے جائز حقوق کے حصول میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ایک دوسرے بیان میں معاون خصوصی شفیع جان نے وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر اطلاعات اپنی حکومت کی ناکامیوں کا ملبہ خیبرپختونخوا پر ڈالنے کے بجائے اپنی کارکردگی پر بھی نظر ڈالیں جو کہ مایوس کن ہے۔ الزام تراشی سے پہلے وفاقی حکومت 5300 ارب روپے کرپشن کا جواب دے۔ وفاقی حکومت نے ملکی معیشت کو تباہ کرکے مہنگائی کو آسمان پر پہنچایا دیا ہے۔ قوم جانتی ہے کہ کون کام کر رہا ہے اور کون میڈیا پر صرف بیانات دے رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پر ملک دشمن عناصر سے گٹھ جوڑ کا الزام دراصل مسلم لیگ ن کی “خوف عمران خان” کا واضح ثبوت ہے۔ ایسی بے تکی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں جنہوں نے خود ملک کو عالمی اداروں کے سامنے گروی رکھا ہوا ہے۔معاون خصوصی شفیع جان نے وفاقی وزیر عطاء تارڑ کے خیبر پختونخوا حکومت پر الزام تراشیوں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت پر الزام تراشیاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ، مضحکہ خیز اور حقائق کے منافی ہیں۔

ہزارہ ڈویژن کی جامعات میں این ایف سی ایوارڈ اور صوبائی مالیاتی حقوق سے متعلق آگاہی سیمینارز کا انعقاد

ہزارہ ڈویژن کی دو بڑی جامعات؛ یونیورسٹی آف ہری پور اور ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ، صوبائی شیئرز اور مالی مسائل سے متعلق آگاہی سیمینارز منعقد ہوئے۔ ان سیمینارز کا مقصد عوام اور خصوصاً طلبہ کو صوبائی وسائل، این ایف سی شیئرز اور مالی چیلنجز سے آگاہ کرنا تھا تاکہ ہر طبقہ فکر صوبے کے جائز مالی حقوق کے حصول کے عمل میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔
یونیورسٹی آف ہری پور میں منعقدہ سیمینار سے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن، چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس ڈاکٹر احتشام، معروف صحافی رفعت اللہ اورکزئی اور یونیورسٹی آف پشاور کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عرفان اشرف نے خطاب کیا۔وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن نے کہا کہ مضبوط مالی نظم و نسق ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ کے اثرات، برین ڈرین اور آبادی کی نقل مکانی جیسے مسائل سے دوچار ہے، جس سے صوبے کی معیشت مسلسل دباؤ کا شکار رہی ہے۔ڈاکٹر احتشام نے این ایف سی ایوارڈ کے ڈھانچے، تشکیل اور متعلقہ امور پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آئندہ ہفتے 11واں این ایف سی ایوارڈ متوقع ہے، مگر چھوٹے صوبوں کو اکثر پروجیکٹڈ تخمینوں سے کم وسائل ملتے ہیں۔ انہوں نے صوبوں پر زور دیا کہ وہ وفاقی محصولات پر انحصار کم کرتے ہوئے اپنے مالی وسائل بڑھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فعال بینکنگ سسٹم اور زرعی اجناس — خصوصاً تمباکو — کو صوبائی سطح پر منظم کرنے سے خیبر پختونخوا کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ وفاق کے ذمہ خیبر پختونخوا کے ایک ہزار ارب روپے سے زائد واجبات ہیں۔ صوبہ سالانہ 20 ارب یونٹ پن بجلی پیدا کرتا ہے جبکہ اپنی ضرورت صرف 10 ارب یونٹ ہے، مگر سستی بجلی کا فائدہ صوبے کو پوری طرح نہیں مل رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئل کی رائلٹی گزشتہ 12 سال سے صوبے کو نہیں دی گئی، جبکہ چشمہ لفٹ کینال منصوبے کی تاخیر کی وجہ سے خیبر پختونخوا کا پانی دیگر صوبوں کو منتقل ہو رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبے کے این ایف سی شیئر میں دہشت گردی کے نقصانات کے پیش نظر اضافہ ناگزیر ہے۔ڈاکٹر عرفان اشرف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سلک روٹ خطے کی ترقی کا اہم ذریعہ رہاہے۔ اگر اس روٹ کے پوٹینشل کو پوری طرح استعمال کیا جائے تو خیبر پختونخوا سمیت پورا پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہو سکتا ہے۔
ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سیمینار
ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں سیمینار کے ریسورس پرسن ڈاکٹر عادل سیماب (ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ، پولیٹیکل سائنس) نے کہا کہ خیبر پختونخوا دہشت گردی کے خلاف جنگ، جغرافیائی حساسیت اور قبائلی اضلاع کے انضمام جیسے بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے باعث شدید مالی دباؤ کا شکار ہے۔ ضم شدہ اضلاع کی بحالی، سکیورٹی کی بہتری، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور سماجی سہولیات کی فراہمی کے لیے اضافی مالی وسائل کی ضرورت ہے، جس کے لیے صوبے کو این ایف سی میں اپنا مؤثر مؤقف پیش کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو ملکی مالیاتی ڈھانچے، صوبائی حقوق اور آئینی تقاضوں سے باخبر ہونا چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں مضبوط معاشی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اکرام اللہ خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف لکی مروت کے گیس ذخائر ملک کی 70 فیصد ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مؤثر منصوبہ بندی کے ذریعے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ وائس چانسلر نے یہ بھی بتایا کہ یونیورسٹی میں مائنز اینڈ منرلز پروگرام شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تاکہ معدنی وسائل پر تحقیق کو فروغ دیا جا سکے۔سیمینار میں یونیورسٹی کی تمام فیکلٹیز کے ڈینز، پروفیسرز، انتظامی افسران اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔