مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا تولیدی صحت، آبادی کے معیار اور قومی ترقی کے درمیان اہم تعلق پر زور
میڈیا کولیشن کی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات، بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ تولیدی صحت محض ایک صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ پائیدار قومی ترقی کا سنگِ میل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ملک کی ترقی کا تعین صرف اس کی آبادی کے حجم سے نہیں بلکہ اس کی معیار سے ہوتا ہے۔بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور کی قیادت میں خیبر پختونخوا حکومت نے تولیدی صحت کے حوالے سے اہم اقدامات اٹھائے ہیں جن میں حاملہ خواتین کے لیے غذائی معاونت،‘نورِش ما’مہم اور صحت کے فراہم کنندگان کی تربیت شامل ہے۔ انٹرگریٹڈ ہیلتھ پروجیکٹ کے تحت مختلف صحت کی خدمات کو یکجا کیا گیا تاکہ بہتر انداز میں خدمات فراہم کی جا سکیں۔ ان اقدامات کا مقصد ماں کی اموات کو کم کرنا اور صوبے بھر میں صحت کی سہولتوں تک رسائی کو بہتر بنانا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کے طور پر اپنی مدتِ حکومت میں، پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے پاکستان میں مٹیریتی ہیلتھ کی بہتری کے لیے کئی اہم اقدامات اٹھائے۔ صحت سہولت پروگرام کے تحت لاکھوں افراد کو مٹیریٹی کیئر کے لیے مفت صحت انشورنس فراہم کی گئی۔ انہوں نے والدہ اور بچے کے لیے ہسپتالوں کی تعمیر کا آغاز کیا، خاص طور پر اٹک میں 200 بیڈ کا اسپتال قابل ذکر ہے۔ احساس پروگرام کے ذریعے ماں کی غذائی ضروریات کو ترجیح دی گئی اور مٹیریٹی نیوٹریشن کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی گئی۔ نیز کامیاب پاکستان کے تحت مائیکرو ہیلتھ انشورنس کے ذریعے لاکھوں افراد کو مفت خدمات فراہم کی گئیں، جن میں مٹیریٹی کیئر بھی شامل تھی۔ ان اقدامات نے پورے ملک میں معیاری مٹیریٹی ہیلتھ خدمات تک رسائی کو بہتر بنایا۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پالیسی اور اس کی عملدرآمد کے درمیان مسلسل فرق پاکستان کے اہم چیلنجز میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ قومی سطح پر پالیسی کے فریم ورک موجود ہیں، حقیقی ترقی کے لیے پالیسی سازی اور اس کے عملدرآمد کے درمیان فرق کو کم کرنا ضروری ہے۔“ایک ترقی یافتہ قوم وہ نہیں ہوتی جو صرف اچھے قوانین تیار کرے، بلکہ وہ قوم ہوتی ہے جو ان کی بروقت اور مساوی عملدرآمد کو یقینی بناتی ہے۔ ہمیں سماجی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک متحرک حکمرانی کی طرف قدم بڑھانا ہوگا”، انہوں نے کہا۔تولیدی صحت کے ثقافتی اور سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر سیف نے وضاحت کی کہ پچھلے اقدامات زیادہ تر اوپر سے نیچے تک، بیرونی طور پر چلائے گئے تھے اور مقامی کمیونٹیز، مذہبی علما اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو مناسب طور پر شامل نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سماجی و ثقافتی پہلوؤں کو عوامی صحت کی حکمت عملی میں شامل کیا جانا چاہیے۔بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے واضح کیا کہ تولیدی صحت کے حوالے سے ” سماجی آگاہی” پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہمات کو مقامی رسم و رواج، اقدار اور مذہبی حساسیتوں کے مطابق ڈیزائن کرنا ضروری ہے۔”سماجی آگاہی کا مقصد غیر ملکی تصورات کو مسلط کرنا نہیں ہے، بلکہ ایسی سمجھ بوجھ پیدا کرنا ہے جو مقامی حقیقتوں کے مطابق ہو”، انہوں نے کہا۔ ”اگر ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے، تو ہم ردعمل، مزاحمت، اور آخرکار ناکامی کا سامنا کریں گے۔”اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے، بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے میڈیا کو ترقی میں ایک ذمہ دار شراکت دار کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دی اور اس کے پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے آگاہی بڑھانے، غلط معلومات کو مسترد کرنے اور صحت کے بارے میں شواہد پر مبنی مہمات کی حمایت کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا ”آپ کے ہاتھ میں قلم اس مکالمے کو تشکیل دے سکتا ہے، غلط فہمیوں کو دور کر سکتا ہے، اور ریاست کو معنی خیز اصلاحات کی طرف بڑھا سکتا ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔