حساس نوجوان پروگرا م کے زیرِ اہتمام جاری تھرڈ پارٹی ایویلیوایشن کے لیے ایک اہم معاہدہ انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز سے کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد پروگرام کے معیار، شفافیت اور مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے تاکہ نوجوانوں کے لیے شروع کیے گئے اقدامات زیادہ پائیدار اور نتیجہ خیز ثابت ہوں۔اس حوالے سے سیکرٹری کھیل و امورِ نوجوانان خیبر پختونخوا سعادت حسن نے کہا کہ صوبائی حکومت نوجوانوں کی فلاح و بہبود، ہنرمندی کے فروغ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ترجمان محکمہ کھیل و امورِ نوجوانان خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ”احساس نوجوان پروگرام“ اس وژن کا مظہر ہے جس کے ذریعے صوبے کے ہزاروں نوجوانوں کو تربیت، رہنمائی اور ترقی کے نئے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تھرڈ پارٹی ایویلیوایشن سے پروگرام کی شفافیت میں اضافہ ہوگا اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے مستند ڈیٹا اور تحقیق پر مبنی سفارشات حاصل ہوں گی۔ڈائریکٹر امورِ نوجوانان ڈاکٹر نعمان مجاہد نے کہا کہ اس ادارے کی تحقیقی و تجزیاتی صلاحیت صوبے میں نوجوانوں سے متعلق پالیسی سازی میں نمایاں کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کے لیے مؤثر اور دیرپا پالیسی سازی ڈیٹا، تحقیق اور زمینی حقائق پر مبنی ہونی چاہیے تاکہ نتائج مثبت اور دیرپا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ امورِ نوجوانان نوجوانوں کے لیے تعلیم، قیادت، روزگار اور ہنرمندی کے میدان میں مزید مواقع فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ ترجمان محکمہ کھیل و امورِ نوجوانان خیبر پختونخوا کے مطابق یہ اقدامات صوبے کے نوجوانوں کو ترقی، تعلیم اور خود اعتمادی کے سفر میں آگے بڑھانے کی جانب ایک تاریخی پیش رفت ہیں۔ محکمہ آئندہ بھی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ اشتراک کے ذریعے نوجوانوں کو تحقیق، تربیت اور جدید علم کے مواقع فراہم کرتا رہے گا۔
ہنگامی صورتحال میں ریلیف سرگرمیوں کو مزید مؤثر بنانے کے لیے کوشاں ہیں، صوبائی وزیر ریلیف، بحالی و آبادکاری عاقب اللہ خان
خیبر پختونخوا کے وزیر ریلیف، بحالی و آبادکاری عاقب اللہ خان نے عوامی اعتما د کو مزید فروغ دینے کے لیے اصلاحی ایجنڈہ “باور” پر عملدرآمد کرتے ہوئے پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی میں ڈیپوٹیشن پر تعینات ریسکیو 1122 کے 14 آپریشنل سٹاف کو واپس ان کے متعلقہ اداروں میں خدمات سرانجام دینے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد ہنگامی صورتحال میں ریلیف سرگرمیوں کو مزید مؤثر بنانا ہے۔ عاقب اللہ خان نے کہا کہ ریسکیو 1122 ایک فعال، منظم اور عوام دوست ادارہ ہے جو ہر قسم کی ایمرجنسی و ناگہانی حالات میں عوام کو فوری امداد اور ریلیف فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ایمرجنسی سروسز اور بروقت ریلیف فراہم کرنے کے لیے اصلاحی اقدامات جاری رہیں گے۔ عاقب اللہ خان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت عوام کی خدمت، تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات یقینی بنا رہی ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت کو صحت کے شعبے میں بھی دوسرے صوبوں پر سبقت حاصل ہے رواں مالی سال کے پہلے چار میں صحت کارڈ ریزرو فنڈز کے502.2 ملین روپے عوام پر خرچ کیے گئے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم
مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم کا صحت کارڈ ریزرو فنڈز استعمال بارے اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کو صحت کے شعبے میں بھی دوسرے صوبوں پر سبقت حاصل ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے چار میں صحت کارڈ ریزرو فنڈز کے502.2ملین روپے عوام پر خرچ کیے گئے۔ ان خیالات کا اظہار مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے گزشتہ روز اپنے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کیا۔ مزمل اسلم نے کہا کہ صحت کارڈ ریزرو فنڈز سے مہلک مہنگی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے اور جولائی سے اکتوبر تک صحت کارڈ ریزرو فنڈز سے کارڈیالوجی سروسز پر 135.3ملین روپے خرچ کیے گئے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ ریزرو فنڈز سے کینسر کے علاج پر 31.4 ملین روپے کے فنڈز استعمال کیے گئے جبکہ جگر پیوندکاری پر 80.6ملین روپے خرچ کیے گئے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ جولائی سے اکتوبر تک صحت کارڈ ریزرو فنڈز سے گردے پیوندکاری پر 88 ملین روپے خرچ کیے گئے ان چار ماہ میں کو کلئیر ایمپلانٹ پر 165.5ن روپے خرچ کیے گئے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ آئی سی یو، ڈائیلسز اور دیگر بیماریوں پر صحت کارڈ ریزرو فنڈز سے1.3ملین روپے خرچ کیے گئے جبکہ پچھلے مالی سال میں بھی صحت کارڈ ریزرو فنڈز کے 824.4ملین روپے خرچ کیے گئے تھے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ رواں سال محکمہ خزانہ خیبرپختونخوا نے صحت کارڈ کیلئے9.65 ارب روپے جاری کر چکے ہیں جو ریزرو فنڈز سے الگ ہیں۔
خیبر پختونخوا کابینہ کی جانب سے صحت کے مراکز میں فارمیسی خدمات کے انضمام سے متعلق پہلی جامع پالیسی کی منظوری صحت کے نظام میں بہتری اور محفوظ، معیاری ادویات کی فراہمی کے لیے تاریخی اصلاحاتی اقدام
حکومت خیبر پختونخوا نے صوبے میں پہلی بار “صحت مراکز میں فارمیسی خدمات کے انضمامِ کی پالیسی کی منظوردی ہے، جو صحت عامہ کے نظام میں بہتری اور سروس ڈیلیوری کو مضبوط بنانے کی سمت میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔محکمہ صحت خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، یہ پالیسی صوبائی کابینہ نے خیبر پختونخوا گورنمنٹ رولز آف بزنس 1985ء کے قاعدہ 25(3) کے تحت باقاعدہ طور پر منظور کی۔یہ انقلابی پالیسی ہسپتالوں اور کلینیکل فارمیسی خدمات کو بہتر بنانے، منشیات کے انتظامی کنٹرول کو مضبوط کرنے اور ادویات سے متعلق قوانین و ضوابط کے مؤثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے تحت ایک یکساں نظام برائے معیارِ کی ضمانت متعارف کرایا جائے گا تاکہ تمام سرکاری صحت مراکز میں محفوظ، مؤثر اور معیاری ادویات کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔پالیسی کا ایک اہم پہلو فارمیسی عملے اور انسانی وسائل کے مؤثر استعمال سے متعلق ہے، تاکہ فارماسسٹ حضرات مریضوں کی نگہداشت اور ہسپتالوں کے انتظامی امور میں ایک پیشہ ورانہ اور فعال کردار ادا کر سکیں۔ اس اقدام سے بہتر علاج کے نتائج کے ذریعے عوام براہ راست مستفید ہوں گے۔ حکومت خیبر پختونخوا اور صوبائی وزیر صحت نے اپنے سرکاری بیان میں اس پالیسی کی منظوری کو صوبے میں جاری صحت عامہ کے اصلاحاتی عمل کا ایک تاریخی سنگِ میل قرار دیا ہے۔ حکومت نے صحت کی خدمات کے معیار، مؤثریت اور شفافیت میں مزید بہتری لانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔اس پالیسی کے تحت صوبے بھر کے ہسپتالوں اور بنیادی صحت مراکز میں معیاری، مؤثر اور سستی ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس اقدام سے مریضوں کے ہسپتال میں قیام کا دورانیہ کم ہوگا، منشیات کے کنٹرول اور نگرانی کے نظام کو مزید مضبوط کیا جائے گا، اور اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (AMR) کے خلاف مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے گی تاکہ ادویات کا استعمال سائنسی شواہد کی بنیاد پر کیا جا سکے۔تفصیلی پالیسی دستاویز عوامی معلومات کے لیے محکمہ صحت حکومت خیبر پختونخوا کی سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔یہ اقدام حکومت خیبر پختونخوا کے اس پختہ عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ صحت کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے، مریضوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور صوبے کے ہر شہری کو محفوظ، معیاری اور مؤثر ادویات کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات (EPI)کے زیرِ اہتمام خسرہ و روبیلا سے بچاؤ کی مہم کو کامیاب بنانے سے متعلق سیمینار کا انعقاد
وزیرِ صحت خیبر پختونخوا خلیق الرحمان اور سیکرٹری صحت شاہداللہ خان کی ہدایات پرمحکمہ صحت خیبر پختونخوا کے توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات (EPI)کے زیرِ اہتمام خسرہ و روبیلا سے بچاؤ کی مہم کو کامیاب بنانے سے متعلق ایک سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں مذہبی طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء، خطیب حضرات،و مذہبی رہنماؤں اورسکالرز، ڈائریکٹر ای پی آئی خیبر پختونخوا ڈاکٹر اصغر خان، ڈاکٹر انعام اللہ (یونیسف)، پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر بوار شاہ، پروفیسر عقیل، ڈاکٹر گوہر امین، اور ڈاکٹر کامران قریشی (یونیسف) بھی شریک ہوئے۔شرکاء نے خسرہ و روبیلا مہم کی کامیابی کے لیے مذہبی طبقے کے کردار کو انتہائی مؤثر، مثبت اور ناگزیر قرار دیا۔ علما کرام، مذہبی سکالرز اوردیگر مقررین نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی صحت اور زندگی کا تحفظ دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے، اور عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوا ئیں اور بیماریوں سے محفوظ رکھیں۔علمائے کرام نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ جمعہ کے خطبات، دروس، مساجد، مدارس اور عوامی اجتماعات میں خسرہ و روبیلا سے بچاؤ کی اہمیت پر روشنی ڈالیں گے اور والدین کو مہم میں شرکت کی ترغیب دیں گے۔وزیرِ صحت خیبر پختونخوا نے خلیق الرحمان نے علمائے کرام کی شمولیت کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ”حفاظتی ٹیکہ جات مہم ایک قومی فریضہ ہے۔ علماء کرام کا تعاون نہ صرف عوام میں اعتماد پیدا کرے گا بلکہ یہ مہم گھر گھر تک کامیابی سے پہنچانے میں مدد ملے گی، انہوں نے کہا کہ حکومت اور مذہبی قیادت کا اشتراک بچوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔“سیکرٹری صحت شاہداللہ خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ”محکمہ صحت تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتا ہے،علماء کرام کی رہنمائی اور عوامی اعتماد اس مہم کو کامیابی کی نئی بلندیوں تک پہنچائے گا۔“ اس موقع پر مہم کی تفصیلات سے متعلق ڈائریکٹر ای پی آئی ڈاکٹر اصغر خان نے بتایا کہ صوبہ بھر میں 17 سے 29 نومبر تک جاری خسرہ و روبیلا مہم میں لاکھوں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی رہنماؤں کے تعاون سے والدین تک درست پیغام پہنچے گا، جس سے مہم کی کامیابی مزید یقینی بنے گی۔اجلاس کے اختتام پر تمام شرکاء نے خسرہ و روبیلا مہم کی بھرپور کامیابی کے لیے مشترکہ عزمِ نو کا اظہار کیا اور حکومتِ خیبر پختونخوا کے صحت عامہ کے اقدامات کو قابلِ تحسین قرار دیا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کی ذیلی کمیٹی نمبر 4 کی چیئرپرسن محترمہ شہلا بانو کی زیرِ صدارت ایوب ٹیچنگ ہسپتال میں ایم آر آئی مشین سے متعلق فرانزک آڈٹ کے حوالے سے ایک اہم اجلاس
خیبر پختونخوا اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کی ذیلی کمیٹی نمبر 4 کی چیئرپرسن محترمہ شہلا بانو کی زیرِ صدارت ایوب ٹیچنگ ہسپتال میں ایم آر آئی مشین سے متعلق فرانزک آڈٹ کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین ایم پی اے اکرام غازی، ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی انعام اللہ، محکمہ صحت کے نمائندگان، ہسپتال انتظامیہ اور فنی ماہرین نے شرکت کی۔اجلاس میں چیئرپرسن محترمہ شہلا بانو نے واضح ہدایت دی کہ ایم آر آئی مشین کے مسئلے کو ہر صورت میں حل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایم آر آئی مشین کی گمشدگی کے معاملے اور اس سے متعلق پیدا ہونے والے کنفیوژن کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ آیا ایم آر آئی مشین نئی خریدی گئی ہے یا پرانی مشین کو دے کر نئی حاصل کی گئی ہے۔محترمہ شہلا بانو نے اس سلسلے میں تکنیکی ماہرین پر مشتمل ایک نئی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت دی، جو مکمل جانچ پڑتال کے بعد پندرہ (15) دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ اس کمیٹی میں بائیومیڈیکل انجینئرز، فنانس آفیسرز اور دیگر متعلقہ ماہرین شامل ہوں گے، تاکہ رپورٹ ہر پہلو سے شفاف اور جامع ہو۔چیئرپرسن نے مزید کہا کہ ہمارا مقصد کسی فرد یا ادارے کو موردِ الزام ٹھہرانا نہیں بلکہ ایوب میڈیکل کمپلیکس سے منسلک منفی تاثر کو ختم کرنا اور ادارے کی ساکھ بحال کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں مستقبل کے لیے ایسا نظام وضع کیا جائے گا جس سے اس نوعیت کے معاملات دوبارہ جنم نہ لیں۔محترمہ شہلا بانو نے یقین دلایا کہ حکومت اور کمیٹی دونوں اس بات کے لیے پرعزم ہیں کہ عوام کو صحت کے شعبے میں شفافیت، معیاری سہولیات اور اعتماد کی فضا فراہم کی جائے۔ ذیلی کمیٹی کی چیئرپرسن شہلا بانو اور کمیٹی کے ممبران نے ایم آر آئی مشین اور اس کے میگنٹ کا بھی معائنہ کیا اور محکمہ صحت کے متعلقہ حکام کو اس سلسلے میں ضروری ہدایات بھی دیں
کمشنر ہزارہ کی زیر صدارت این اے۔18 ہری پور کے ضمنی الیکشن کے انتظامات سے متعلق اہم اجلاس
کمشنر ہزارہ ڈویژن فیاض علی شاہ کی زیر صدارت آج ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں 23 نومبر کو حلقہ این اے۔18 ہری پور میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے انتظامات اور سکیورٹی امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں ریجنل پولیس آفیسر ہزارہ، ڈپٹی کمشنر ہری پور، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ہری پور، ایس پی اسپیشل برانچ، ریجنل الیکشن کمشنر ہزارہ، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر ہری پور، ریٹرننگ آفیسر ہری پور اور مانیٹرنگ آفیسر ہری پور نے شرکت کی۔اجلاس کے دوران ضمنی الیکشن کے سلسلے میں انتظامی تیاریوں اور سکیورٹی پلان پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ کمشنر ہزارہ نے اس موقع پر کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے اور تمام سرکاری محکموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو مکمل انتظامی معاونت فراہم کریں تاکہ انتخابات شفاف، پُرامن اور منظم انداز میں منعقد ہوں۔کمشنر ہزارہ نے ہدایت کی کہ تمام سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی پر موجود رہیں اور تمام منظور شدہ چھٹیاں الیکشن کے عمل کے مکمل ہونے تک منسوخ کی جائیں۔ انہوں نے مزید ہدایت دی کہ بی ایچ یوز (BHUs) میں ڈاکٹرز اور عملے کی حاضری یقینی بنائی جائے جبکہ فائر بریگیڈ اور ایمبولینس سروسز کو مکمل طور پر فعال اور ہمہ وقت تیار رکھا جائے۔ریجنل الیکشن کمشنر ہزارہ نے انتظامی اور سکیورٹی انتظامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ہری پور کے بھرپور تعاون کو سراہا۔آخر میں کمشنر ہزارہ اور ریجنل پولیس آفیسر ہزارہ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ الیکشن کمیشن کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی اور این اے۔18 ہری پور کا ضمنی الیکشن پُرامن، منصفانہ اور شفاف انداز میں منعقد کرانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے
کمشنر ہزارہ فیاض علی شاہ سے ڈبلیو ایچ او خیبر پختونخوا کی ٹیم کی ملاقات — پولیو کی صورتحال اور جاری اقدامات پر تبادلہ خیال
کمشنر ہزارہ ڈویژن فیاض علی شاہ سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) خیبر پختونخوا کے صوبائی ٹیم لیڈ ڈاکٹر خالد عبدالرحیم نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ملاقات کی۔ ملاقات میں پولیو کی مجموعی صورتحال، جاری انسداد پولیو مہم اور مستقبل کے اقدامات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ڈاکٹر خالد عبدالرحیم نے کمشنر ہزارہ کی جانب سے پولیو کے خاتمے کے لیے فراہم کی جانے والی بھرپور معاونت اور فعال قیادت کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ کمشنر ہزارہ کی رہنمائی اور انتظامی تعاون سے فیلڈ کارکردگی میں نمایاں بہتری اور مانیٹرنگ نظام میں استحکام پیدا ہوا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ڈبلیو ایچ او تمام سطحوں پر تکنیکی معاونت اور قریبی ہم آہنگی جاری رکھے گا تاکہ خطے کو پولیو سے مکمل طور پر پاک رکھنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو مزید مؤثر بنایا جا سکے۔اس موقع پر ڈاکٹر جہانگیر خان، فوکل پرسن ڈبلیو ایچ او پی ای او سی ہزارہ، ڈاکٹر طیّبہ ممتاز، ایریا کوآرڈینیٹر ڈبلیو ایچ او ہزارہ ڈویژن، اور ڈاکٹر اسامہ شبیر، ڈویژنل ای پی آئی آفیسر ڈبلیو ایچ او بھی موجود تھے۔کمشنر ہزارہ فیاض علی شاہ نے ڈبلیو ایچ او ٹیم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ انسداد پولیو مہم کو مزید مضبوط بنانے اور پولیو کے خاتمے کے ہدف کے حصول کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرتی رہے گی
Turning Soil into Red Gold: How Saffron is Changing Lives in Northern Pakistan. Khyber Pakhtunkhwa government launches saffron drive across 21 districts
Written by: Muhammad Daud Khan, Incharge Pakhtunkhwa Radio Kurrum, DGIPR.
BOONI, Pakistan: On a crisp October morning in the highlands of Mastuj Valley — some 35 kilometres northeast of Booni, the district headquarters of Upper Chitral — 42-year-old Hajira Kamal stoops over a patch of freshly turned soil.
Her hands, hardened by years of coaxing life out of wheat and maize, now cradle something entirely new — delicate saffron corms, each one a tiny promise wrapped in earth.
She presses them gently into the earth, her every move as careful as threading a needle, while the autumn wind whistles through the terraced fields, carrying whispers of change.
“We were guided by the Agriculture Department to prepare our land properly,” Hajira says, her voice calm but firm. “Later, in Booni, we attended a six-hour training session where we learned every step from planting to harvesting.”
For Hajira, this is more than just another crop — it is a leap of faith. She is among the first women farmers in northern Khyber Pakhtunkhwa to join a new provincial government’s initiative to sow the seeds of saffron, the world’s most expensive spice.
In our villages, women work in the fields every day, but no one acknowledges us. This project has brought us into the picture. It’s not just about money; it’s about recognition.” – Hajir Kamal, a grower
To her, the small purple flowers that will soon bloom in these remote valleys symbolise both livelihood and liberation — a quiet revolution taking root in the mountains, where tradition and transformation now share the same soil.
Turning soil into gold
According to the National Disaster and Risk Management Fund (NDRMF) — a federal organisation focusing on making Pakistan climate-resilient — Crocus sativus, commonly known as saffron or zaffron, has long been prized for its brilliant crimson hue, sweet aroma, and medicinal magic.
Each saffron thread is actually the dried stigma of the flower, a tiny filament plucked by hand and dried with painstaking care. It takes roughly 75,000 blossoms to yield just one pound of saffron — proof that every gram truly weighs its worth in gold.
The crop is planted in September and October, when farmers bury corms weighing 10 to 20 grams in well-drained, sunlit soil.
Within 70 to 90 days, the first blooms appear. Each corm can yield three to five blossoms, and an acre of land can produce one or two kilograms of dried saffron threads.
With prices ranging from Rs 300,000 to Rs 500,000 per kilogram — or even higher for premium saffron varieties — saffron stands as one of the most valuable crops on earth. No wonder it is called “red gold.”
Recognising its potential, the Khyber Pakhtunkhwa government launched a Rs 500 million, three-year programme in 2024 to introduce saffron cultivation across 21 districts.
Part of the Annual Development Programme, the project aims to diversify agriculture, reduce dependence on low-value staples, and empower small-scale farmers — especially women — to tap into high-income markets.
After this training, we’ll start planting saffron. We expect a good harvest this year.” – Zahir Ali, a farmer
The Agriculture Department distributes free saffron bulbs in areas where the climate is naturally suitable for the crop. The goal is to make saffron a cash crop that can help farmers turn the tide of fortune.
Under this initiative, saffron cultivation has been introduced in Upper and Lower Chitral, Upper and Lower Dir, Bajaur, Malakand, Upper Swat, Lower Swat, Shangla, Buner, Abbottabad, Mansehra, Battagram, Torghar, Haripur, Swabi, Hangu, Khyber, Kurram, North Waziristan, and South Waziristan — a trail of red gold stretching across the province.
From Booni to Parachinar
Across the northwestern Khyber Pakhtunkhwa province, similar scenes are unfolding one after another.
In Parachinar, the administrative headquarters of Kurram district bordering Afghanistan, dozens of farmers gather for hands-on training on saffron cultivation. Among them is Zahir Ali, 45, who travelled from a nearby village to attend.
“After this training, we’ll start planting saffron. We expect a good harvest this year,” Ali says, his optimism as bright as the flowers he hopes to grow.
According to Fayyaz Ali Jan, Director of Agriculture Extension in Kurram, the region’s climate is tailor-made for saffron.
“All mountain areas of Kurram are suitable for saffron cultivation. The British first experimented with saffron here. In 2021, we planted it experimentally on two kanals in Pewar and it succeeded,” Jan says.
This is a smart crop for our geography. The first two weeks of October are ideal for planting, and we’ve already trained farmers to follow proper methods. If the farmers follow our instructions, it could become a major source of income.” – Dr Iftikhar Ahmed, Director of Agriculture
This year alone, saffron will be cultivated on 105 acres in Kurram. “We’ve already received seed bulbs for 28 kanals. More are on the way. We expect an excellent harvest,” he says.
For farmers like Zahir Ali, saffron offers a chance to break free from the cycle of low returns tied to traditional crops. But for women like Hajira Kamal, it means something even deeper — visibility and validation.
“In our villages, women work in the fields every day, but no one acknowledges us. This project has brought us into the picture. It’s not just about money; it’s about recognition,” Hajira says.
A global saffron race
Globally, saffron remains a high-stakes but high-reward trade. In Iran and Afghanistan, women play a central role — from planting and plucking to drying and grading.
Iran still wears the crown, exporting $95.5 million worth of saffron in 2024 — roughly 38 per cent of global sales, according to World’s Top Export, an independent trade and research platform.
Afghanistan followed with $60.4 million, while Spain, the Netherlands, and France rounded out the top five exporters.
Pakistan, meanwhile, remains on the sidelines — importing most of its saffron from Iran and Afghanistan, both formally and informally.
Experts believe homegrown cultivation could change the game, reducing dependence and even opening new doors to experts.
“This is a smart crop for our geography,” says Dr Iftikhar Ahmed, Director of Agriculture in Swat. “The first two weeks of October are ideal for planting, and we’ve already trained farmers to follow proper methods.”
Growing saffron is only half the battle. The real test begins after harvest processing, packaging, and marketing. That’s where Iran and Afghanistan have excelled. Without a well-defined marketing chain, farmers could find themselves between a rock and a hard place.” – Dr Saqib Husain Bangash, a researcher
Dr Ahmed’s team claims to have distributed disease-free bulbs with high germination rates and provided hands-on training to farmers.
“We’re introducing saffron in Swat for the first time,” he says. “If the farmers follow our instructions, it could become a major source of income.”
Weathering the uncertainty
Dr Saqib Husain Bangash, a Singapore-based PhD in agriculture, warns that the road ahead is not a bed of roses. Saffron demands precision — timely irrigation, weeding, and delicate post-harvest care. Most local farmers are still learning. Poor management can ruin a crop’s quality in days.”
He adds that climate change has thrown a spanner in the works. “Erratic rainfall, prolonged droughts, and warmer winters can disrupt flowering cycles and reduce yields,” Bangash says.
Marketing matters most
Perhaps the biggest hurdle lies not in the soil but in the market. Pakistan currently lacks processing, grading, and packaging facilities — the backbone of a successful saffron industry.
“Growing saffron is only half the battle. The real test begins after harvest processing, packaging, and marketing. That’s where Iran and Afghanistan have excelled,” says Dr. Bangash.
He cautions that without a well-defined marketing chain, farmers could find themselves between a rock and a hard place.
“The government must clearly assess how much saffron Pakistan actually needs. Are we meeting local demand? If production exceeds it, do we have a plan for surplus? A detailed market study is essential.”
Planting seeds of change
Back in Chitral, Hajira Kamal plants the last row of saffron bulbs. She straightens up, wiping the soil off her hands, and surveys her field — the afternoon sun glinting off the snow-capped peaks that seem to nod in quiet approval.
“This is the first time I’ve planted saffron. We’re hopeful. If it succeeds, it will change everything for us,” she says hopefully.
Dr Bangash believes that in the early years, farmers can still earn by selling saffron bulbs — a short-term gain while the wider market takes root. “But the long-term vision must go beyond the field. It must connect the farmer to the world.”
آئین پاکستان کی باب نمبر 2 کے مطابق ریاست کی فلاحی ذمہ داریاں
تحریر: انجینئر محمد اطہر سوری
آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باب 2 (آرٹیکل 29 تا 40) میں شامل “اصولِ پالیسی” کا مجموعہ ریاستی اداروں کی کارکردگی کے لیے ایک آئینی، اخلاقی اور تزویراتی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ یہ اصول ریاست کی اس ذمہ داری پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کو ان ہدایات کے مطابق ڈھالے جن کا مقصد ملک میں اسلامی، جمہوری اور ایک مضبوط فلاحی ریاست کی روح کو پروان چڑھانا ہے۔
آرٹیکل 29 واضح کرتا ہے کہ ہر ریاستی ادارے اور ہر شخص جو ریاست کی جانب سے کام کر رہا ہو، اس پر ان اصولوں کی پاسداری کرنا لازم ہے، تاہم ان اصولوں پر عملدرآمد دستیاب وسائل سے مشروط ہوتا ہے۔ جبکہ آرٹیکل 30 کے تحت، کسی بھی عمل یا قانون کی قانونی حیثیت کو اس بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اصولِ پالیسی کے مطابق نہیں ہے۔ یہ شق عدالتی مداخلت کو محدود کرتی ہے مگر ساتھ ہی، ریاستی اداروں پر آرٹیکل 29(3) کے ذریعے ہر سال اسمبلی میں عملدرآمد کی رپورٹ پیش کرنے کا فریضہ عائد ہوتا ہے، جو ایک داخلی احتسابی میکانزم فراہم کرتا ہے۔
یہ اصول سماجی اور معاشی انصاف کے حصول پر خصوصی زور دیتے ہیں۔ آرٹیکل 37 ریاست کو پسماندہ طبقات کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو فروغ دینے اور سستا و تیز رفتار انصاف یقینی بنانے کا پابند کرتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے سائنس و ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ نے اس سمت میں ٹیکنالوجی کے ذریعے جدید نفاذ کی مثالیں قائم کی ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ نے تعلیم میں بہتری کے لیے تحقیق و ترقی (R&D) پروگرامز اور ٹیکنالوجی انکیوبیشن سینٹرز قائم کیے ہیں۔ جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ نے گورنمنٹ کے عمل کو شفاف بنانے اور انصاف کی فراہمی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے جیل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم اور پراپرٹی ٹیکس ریکارڈز کی کمپیوٹرائزیشن جیسے منصوبے شروع کیے ہیں۔ اسی طرح، آرٹیکل 34 کے تحت خواتین کی قومی زندگی میں مکمل شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے 25 فیصد کوٹے کے ساتھ آئی ٹی ٹریننگز دی جا رہی ہیں، جس کے تحت انہیں وظیفہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
یہ اصول اخلاقی اور قومی یکجہتی کو بھی مرکزی اہمیت دیتے ہیں۔ آرٹیکل 33 کے ذریعے ہر قسم کے نسلی، قبائلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، اور محکمے نے یقینی بنایا ہے کہ تمام بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر اور بغیر کسی امتیاز کے ہوں۔ آرٹیکل 31 (اسلامی طریقہ زندگی) کی پاسداری کو یقینی بناتے ہوئے، ڈیپارٹمنٹ نے ملازمین کو نماز کی ادائیگی یقینی بنانے کی ترغیب دی ہے۔ آرٹیکل 38 میں شامل عوامی فلاح و بہبود کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، محکمے نے صنعت، صحت اور تعلیم میں ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اقدامات کیے ہیں تاکہ عوام کا معیار زندگی بلند ہو سکے۔ علاوہ ازیں، آرٹیکل 40 کے ذریعے مسلم دنیا سے تعلقات اور بین الاقوامی امن کو فروغ دینے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
ان اصولوں کے فوائد میں ریاستی افعال کو آئینی اور اخلاقی بنیاد فراہم کرنا، سماجی عدم مساوات کو کم کرنے کا روڈ میپ دینا، اور قومی یکجہتی کو مضبوط کرنا شامل ہے۔ تاہم، ان اصولوں کا انحصار وسائل کی دستیابی پر ہونے کی وجہ سے، بڑے فلاحی منصوبوں کی تکمیل میں معاشی چیلنجز حائل ہو سکتے ہیں۔ دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ کچھ اہم اہداف، جیسے ربا کا خاتمہ (آرٹیکل 38(f)) اور مسلح افواج میں شرکت (آرٹیکل 39)، وفاقی دائرہ کار میں آتے ہیں، جس سے صوبوں کا دائرہ عمل محدود ہو جاتا ہے۔
آخر میں بتاتا چلوں کہ اصولِ پالیسی صرف خواہشات کا پلندہ نہیں بلکہ ایک آئینی انجنئیرنگ ڈیزائن ہیں جو ریاست کو اس کی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان اصولوں کی کامیابی کا راز صرف قانون سازی میں نہیں، بلکہ ریاستی اداروں کے مضبوط سیاسی عزم اور نظاماتی عملدرآمد میں مضمر ہے، جیسا کہ ایس ٹی جیسے محکموں کی طرف سے ٹیکنالوجی کے ذریعے عوامی فلاح کو یقینی بنانے کی مثالیں ثابت کرتی ہیں۔
